لمحہ لمحہ مائنس ہوتی حکومت

690

پرانے لطیفے سے آغاز کرتے ہیں:
ایک شخص نے مچھلی فروخت کرنا شروع کی۔ سوچا دکان پر ایک بورڈ لگادیا جائے۔ بورڈ بن کر آیا۔ لکھا تھا ’’یہاں میٹھے پانی کی تازہ مچھلی فروخت ہوتی ہے‘‘۔ بورڈ لگانے میں مدد دینے کے لیے آئے دوستوںمیں سے ایک نے پوچھا ’’کیا تم کسی اور جگہ بھی مچھلی بیچتے ہو؟ یہاں کے ساتھ وہاں کا ذکر بھی کردیتے‘‘۔ مچھلی فروش نے کہا ’’نہیں بھائی! میری کوئی اور برانچ نہیں ہے‘‘۔ دوست نے کہا ’’تو پھر ’’یہاں‘‘ کا لفظ اضافی ہے اسے مٹادو‘‘۔ لفظ مٹا دیا گیا۔ اب جملہ رہ گیا ’’میٹھے پانی کی تازہ مچھلی فروخت ہوتی ہے‘‘۔ ایک دوسرے دوست نے کہا ’’کیا میٹھے کے علاوہ کھارے پانی کی مچھلی کی فروخت کا بھی پروگرام ہے‘‘۔ جواب ملا ’’نہیں‘‘ دوست نے کہا ’’تو پھر میٹھے پانی‘‘ کے الفاظ زائد ہیں۔ یہ الفاظ بھی غائب کردیے گئے۔ اب جملہ رہ گیا ’’تازہ مچھلی فروخت ہوتی ہے‘‘۔ ایک اور دوست نے کہا ’’بندہ خدا! کیا باسی مچھلی بھی بیچو گے‘‘۔ مچھلی فروش نے کہا ’’نہیں بھائی میں تو ایسا سوچ بھی نہیں سکتا‘‘۔ تازہ کا لفظ بھی مٹادیا گیا۔ اب جملہ رہ گیا ’’مچھلی فرو خت ہوتی ہے‘‘ ایک دوست بولے ’’فروخت کیا مطلب کیا ادھار بھی دوگے‘‘۔ فروخت کا لفظ بھی کھرچ دیا گیا۔ اب جملہ رہ گیا ’’مچھلی ہوتی ہے‘‘۔ کچھ یہی صورت حال عمران خان حکومت کی بھی ہے۔ لفظ لفظ، لمحہ لمحہ مائنس ہوتی جارہی ہے۔ اب صرف ’’حکومت ہوتی ہے‘‘ کے الفاظ رہ گئے ہیں۔ ہر خوبی سے عاری۔ یہ بھی نجانے کب اڑادیے جائیں۔ اندر سے تبدیلی، قومی، وسط مدتی اور اتفاق رائے سے وجود میں لائی جانے والی اگلی حکومت کی باتیں ہورہی ہیں، تجزیے کیے جارہے ہیں۔ ایک مرتبہ پھر سیاسی انجینئرنگ کی ضرورت پیش آرہی ہے۔
حکومت کے ہر شعبے میں عمران خان کی ناکامی عیاں ہے۔ ہر طرف افراتفری ہے۔ عمران خان ایک ایسی ٹیم تشکیل دینے میں ناکام رہے جو پاکستان جیسے مسائل کی دلدل میں اترے ہوئے ملک کے مسائل حل کر سکے۔ پرانے مسائل کا حل تو کیا نکالنا تھا حکومتی ٹیم نے نہ صرف ان مسائل کو مزید گہرا کردیا بلکہ نت نئے مزید مسائل بھی پیدا کردیے۔ تحریک انصاف کے منتخب وزرا اور مشیروں کی ناکامی کی صورت میں انہیں آئی ایم ایف سے وزیر خزانہ، گورنر اسٹیٹ بینک اور اندرون ملک سول بیورو کریسی اور فوج سے جو وزیر مشیر مہیا کیے گئے ہیں ان میں سے کچھ نے ناکامی کی صورت میں بریف کیس اٹھانے اور بیرون ملک پرواز کرجانا ہے، جب کہ بیش تر کی پاکستان تحریک انصاف سے وابستگی ہے نہ وفاداری۔ وہ حکومتی لائن (اگر کوئی ہے) سے واقف ہیں، نہ اس پر چلنے پر تیار ہیں اور نہ عمران خان کو جوابدہ تصورکرتے ہیں۔ معیشت پاکستان کی تاریخ کی بدترین حالت میں ہے۔ نواز شریف کو نکالا گیا تب جی ڈی پی کی شرح نمو 5.8 تھی۔ عمران خان حکومت اسے 1.8 پر لے آئی۔ اب مائنس میں جانے کا مرحلہ درپیش ہے۔ مہنگائی عام آدمی کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اقتدار میں آنے سے پہلے عمران خان بجا طور پر کرپٹ مافیاز کو اس کا ذمے دار قرار دیتے تھے لیکن انہیں احساس ہی نہیں ہوا کب کرپٹ مافیاز ان کے دائیں بائیں کاندھے سے کاندھا ملا کر کھڑی ہوگئی۔ نتیجہ یہ کہ انہوں نے جس چیز کی مہنگائی کا نوٹس لیا اس کی قیمت میں مزید اضافہ ہوگیا۔ انہوں نے چینی کی قیمتوں پر قابو پانے کی کوشش کی۔ ناکام رہے۔ وہ چینی مافیا پر ہاتھ ڈال سکے نہ چینی کی قیمتیں کم کرسکے۔ الٹا قیمتوں میں مزید اضافہ ہوگیا۔ ایک طرف وہ مافیاز کو پکڑنے اور سزا دینے کے دعوے کر رہے ہیں دوسری طرف انہوں نے جہانگیر ترین کو باآسانی نہ صرف فیملی بلکہ قریبی عزیز واقارب سمیت باہر جانے دیا۔ اب ڈرامے بازی کرتے ہوئے وہ چینی کی ذخیرہ اندوزی کے خلاف مہم چلارہے ہیں۔ چند ذخیرہ اندوزوں کو گرفتار کرنا یا چینی کے ذخیروں پر چھاپے مارنا بڑا آسان ہے لیکن ایسی کاروائیاں موثر ثابت نہیں ہوتیں۔ گورننس کا یہ حال ہے کہ چیف سیکرٹریوں، آئی جی، مختلف بورڈز اور محکموں کے چیئرمنیوںکی تعیناتی اور ردوبدل اتنی غیر سنجیدگی اور تیز رفتاری سے کیا جارہا ہے کہ کارکردگی دیکھی جاتی ہے اور نہ عدم کارکردگی۔ جس محکمے اور شعبے کا سربراہ حکومت کے غلط کاموں اور خاکوں میں رنگ بھرنے سے انکار کردے اس کی چھٹی۔ تین چار مہینے سے زیادہ کسی کو ٹک کر کام کرنے کا موقع ہی نہیں دیا جاتا۔ ایف بی آر کی سربراہ نوشین جاوید اس کی مثال ہیں۔ وہ ایک ایماندار اور زبردست ساکھ کی حامل خاتون ہیں جن کا کیرئر ریکارڈ بہترین رہا ہے۔ ان کو ہٹاکر تین مہینے کے لیے جاوید غنی صاحب کی تعیناتی کردی گئی ہے۔ اس کے لیے کسی دانشوری اور دیدہ بینا کی ضرورت نہیںکہ چونکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ اور بچوں کا کیس ایف بی آر کے سپرد کردیا گیا ہے اس لیے من پسند نتائج کے حصول کے لیے یہ اکھاڑ پچھاڑ کی گئی ہے۔ حکومتیں اس طرح نہیں چلتیں۔
خان صاحب کی ایک بڑی ناکامی اپنی حکومت کو متحد رکھنے میں نظر آتی ہے۔ ان کے اتحادی ان سے دور ہوتے جاتے رہے ہیں۔ بی این پی مینگل کے سربراہ اختر مینگل پہلے ہی حکومت سے علٰیحدہ ہوچکے ہیں۔ انہیں واپس لانے کی کوشش نہیں کی گئی۔ پچھلی مرتبہ جب اختر مینگل نے حکومت سے علٰیحدگی کی بات کی تھی، جہانگیر ترین دوڑتے ہوئے گئے تھے اور انہیں منا لیا تھا۔ اب خود جہانگیر ترین پارٹی میں شامل نہیں ہیں۔ ق لیگ کا بھی یہی حال ہے۔ عمران خان نے اپنی حکومت کے استحکام کا تاثر دینے کے لیے جو دعوت کی تھی اس میں چودھری برادران نے شمولیت سے انکار کردیا تھا۔ روزنامہ جنگ کے میر شکیل الرحمن کی گرفتاری پر بھی وہ اپنی ناراضی کا اظہار کرچکے ہیں۔ اب ایک ٹی وی چینل کی بندش پر انہوں نے عمران خان کو خط لکھ دیا ہے جس میں کھل کر اس اقدام کی مذمت کی ہے۔ آج کل خط محبت میں نہیں ناراضی کی تشہیر کے لیے لکھے جاتے ہیں۔ بات یہ ہے کہ عمران خان کسی کی عزت نہیں کرتے۔ جن اتحادیوںکی تائید اور حمایت پر ان کی حکومت کھڑی ہے وہ ان کی بھی
عزت نہیں کرتے۔ عزت کرنا تو درکنار وہ ان سے ملنا بھی پسند نہیں کرتے۔ اتحادی بھی یہ بات جانتے ہیں۔ وہ بھی منتظر ہیں کہ جن کے کہنے سے حکومت میں آئے تھے کب ان کی طرف سے اشارہ ہو اور وہ حکومت چھوڑیں۔ پارٹی کے اندر کی جو صورتحال ہے فواد چودھری نے اسے اتنا کھل کر بیان کردیا ہے اب اس پر کہنے کے لیے کچھ باقی نہیں بچا۔ پارٹی کے اندر بھی لوگ اس ڈوبتے ہوئے جہاز سے چھلانگیں مارنے کی تیاریاں کررہے ہیں۔
تحریک انصاف حکومت کی رخصت کی ایک اور بلکہ سب سے اہم وجہ ’’ایک پیج پر ہونے‘‘ کا خاتمہ ہے۔ اب سلیکٹرز اور عمران خان ایک صفحے پر نہیں ہیں۔ اس کی وجہ خود عمران خان ہیں۔ سلیکٹرز انہیں بڑے پا پڑبیل کر لائے تھے۔ ایک جمی جمائی حکومت عوام میں جس کے لیے پسندیدگی پائی جاتی ہو، عدلیہ کی مدد سے اسے ہٹانا، الیکشن میں انجینئرنگ کے کرشمے دکھانا اور پھر عمران خان کو پرفارمنس کے لیے خالی میدان مہیا کرنا سلیکٹرز نے عمران خان کے لیے کیا نہیں کیا لیکن اس کے باوجود عمران خان کارکردگی دکھانے میں مکمل ناکام رہے۔ عوام وخواص میں نہ صرف ان کے بلکہ سلیکٹرز کے خلاف بھی غم وغصہ بڑھتا جارہا ہے۔ سلیکٹرز کے خلاف جتنا غصہ آج پایا جاتا ہے اتنا پہلے کبھی نہیں تھا۔ ملک کی موجودہ تباہی اور پریشانیوںکا ذمے دار سلیکٹرز کو سمجھا جارہا ہے۔ سلیکٹرز بھی مجبور ہوتے جارہے ہیں کہ اپنی اس کٹھ پتلی کو ہٹا کر کسی اور کو لایا جائے۔ اس کے اشارے بھی مل رہے ہیں۔ عمران خان خود اپنے وزراء کو کہہ چکے ہیں کہ چھ مہینے کا وقت ہے ورنہ معاملہ ہاتھ سے نکل جائے گا۔ مائنس ون، عمران خان کی طرف سے کرسی کے مضبوط نہ ہونے، مائنس ون نہیں مائنس تھری کی باتیں آگ اور دھوئیں کی موجودگی کا پتا دے رہی ہیں۔ اس کے باوجود عمران خان کارکردگی سے زیادہ تسبیح پھیرنے میں کہیں سنجیدہ نظر آتے ہیں۔ جن بھوت اور توہم پرستی کے چکر میں ان اسلامی تعلیمات کو بھی فراموش کر بیٹھے ہیں جن کا وہ ماضی میں ذکر کیا کرتے تھے جن پر عمل کرکے ایک مستحکم حکومت بھی تشکیل دے سکتے تھے اور دین دنیا کی فلاح بھی، لیکن کیا جمہوریت میں ایسا ممکن ہے؟