’’مسجد ڈھائو‘ مندر بنائو‘‘

1149

’’ریاست مدینہ‘‘ کی دعویدار حکومت یوں تو سارے کام ہی اُلٹے کررہی ہے اور اس مقدس ریاست کی بدنامی کا باعث بن رہی ہے لیکن اب اس نے ’’مسجد ڈھائو، مندر بنائو‘‘ کی پالیسی کا اعلان کرکے سب کو حیران کردیا ہے۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ حکومت نے ایک ہفتے پہلے اسلام آباد میں مندر بنانے کا اعلان کیا اور اس کے چند روز بعد اسلام آباد کے علاقے ’’ماڈل ٹائون ہمک‘‘ میں ایک پچیس تیس سال پرانی مسجد کو مسمار کردیا۔ ’’مسجد ڈھائو، مندر بنائو‘‘ کی اس پالیسی نے لوگوں کے زخموں پر نمک چھڑک دیا ہے اور وہ پوچھ رہے ہیں کہ حکومت اور خاص طور پر وزیراعظم عمران خان آخر کس کے ایجنڈے پر کام کررہے ہیں اور کن طاقتوں کو خوش کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کس کی خواہش پر اسلام آباد میں مندر بنانے کی اجازت دی ہے۔ آخر اسلام آباد میں ہندو کتنے ہیں جنہیں پوجا پاٹ کے لیے مندر کی ضرورت پیش آگئی ہے اور عمران خان کی لبرل حکومت نے ہندو اقلیت کے ساتھ وضع داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے مندر بنانے کا فیصلہ کیا ہے جس کے لیے وفاقی دارالحکومت کے ترقیاتی ادارے سی ڈی اے نے کئی ایکڑ زمین بھی مختص کردی ہے۔ اسلام آباد کے مکینوں کا دعویٰ ہے کہ یہاں ہندوئوں کی آبادی آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہے۔ وہ اتنے بھی نہیں ہیں کہ انہیں انگلیوں پر گنا جاسکے۔ سب سے اہم بات یہ کہ اسلام آباد، اسلام کے نام پر آباد ہونے والا شہر ہے جہاں مکینوں کی ضرورت کے مطابق مسجدیں تو بنائی جاسکتی، مندر بنانے کی شرعاً کوئی گنجائش نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تمام مکاتب فکر کے علما نے مندر بنانے کے فیصلے کی شدید مذمت کی ہے اور اس کے خلاف مزاحمت کرنے کا اعلان کیا ہے۔ جامعہ بنوری ٹائون کراچی نے مندر کی مجوزہ تعمیر کے خلاف باقاعدہ فتویٰ جاری کردیا ہے۔
مندر تعمیر ہوتا ہے یا نہیں یہ تو وقت ہی فیصلہ کرے گا لیکن اس فیصلے کے ساتھ ہی اسلام کے مضافاتی علاقے ’’ماڈل ٹائون ہمک‘‘ میں ایک نہایت پرانی مسجد کو مسمار کرانے کی کارروائی نے اس معاملے کو نیا رُخ دے دیا ہے اور لوگ برملا کہہ رہے ہیں کہ حکومت مسجد ڈھانے اور مندر بنانے کی پالیسی پر عمل کررہی ہے۔ بھارت میں تو مسجدوں پر بہت بُرا وقت آیا ہوا ہے وہاں مسجدیں مسمار کی جارہی ہیں اور ان پر مندر تعمیر کیے جارہے ہیں۔ کئی سو سال پرانی بابری مسجد کے انہدام کا دلخراش واقعہ آج بھی مسلمانوں کو خون کے آنسو رُلا رہا ہے۔ جہاں اب بھارتی عدالت ِ عظمیٰ کے فیصلے کے مطابق رام مندر تعمیر ہورہا ہے اور ہندو اس پر خوشیاں منارہے ہیں۔ تو کیا عمران خان کی حکومت بھی بھارت کے نقشِ قدم پر چلنا چاہتی ہے۔ اس نے مندر تعمیر کرنے اور تیس سال پرانی مسجد کو ڈھانے کا فیصلہ آخر کس کی شہہ پر کیا ہے؟ یہاں ضروری محسوس ہوتا ہے کہ ہم اسلام آباد کی مضافاتی بستی ’’ماڈل ٹائون ہمک‘‘ کا بھی مختصر تعارف کرا دیں۔ اقبال نے کہا ہے:
کریں گے اہل نظر تازہ بستیاں آباد
مری نگاہ نہیں سوئے کوفہ و بغداد
تو ماڈل ٹائون ہمک، اسلام آباد کے ویرانے میں اسی اصول کے تحت وجود میں آیا تھا۔ اس ویران جگہ پر پاکستان میں پہلی مرتبہ صحافیوں سمیت اخباری صنعت سے وابستہ تمام کارکنوں کو پانچ اور سات مرلے کے پلاٹ الاٹ کیے گئے۔ صحافی حضرات تو کچھ عرصہ بعد پلاٹ یا مکان بیچ باچ کر میڈیا ٹائون اسلام آباد منتقل ہوگئے، البتہ اخباری کارکنوں اور دیگر الاٹیوں نے اس بستی کو ایک جیتا جاگتا پُررونق شہر بنادیا۔ یہاں سی ڈی اے کے تعاون سے تمام مسالک کی مسجدیں تعمیر کی گئیں جن کے درمیان قابل رشک تعاون کی فضا قائم تھی۔ البتہ اہل حدیث کے لیے کوئی جگہ مختص نہ کی گئی۔ چناں چہ انہوں نے ’’اپنی مدد آپ‘‘ کے تحت شاملات کے ایک مختصر رقبے پر جو برساتی نالے کے قریب نشیب میں واقع تھا مسجد کی تعمیر شروع کردی اور سی ڈی اے حکام کو بھی باخبر رکھا۔ مسجد کی انتظامیہ نے سی ڈی اے میں باقاعدہ مسجد کی منظوری کی درخواست دی۔ اس نے مسجد کے لیے باضابطہ اجازت نامہ تو جاری نہیں کیا لیکن اس سے تعرض بھی نہ کیا۔ اس طرح مسجد مکمل ہونے کے بعد کم و بیش تیس سال تک آباد رہی۔ اس میں پانچوں نمازوں کے علاوہ جمعہ اور عیدین کے اجتماعات ہوتے تھے اور لوگوں کی بڑی تعداد ان میں شرکت کرتی تھی۔ پھر جوں ہی اسلام آباد میں مندر کی تعمیر کا چرچا ہوا سی ڈی اے کی ٹیم پولیس کی بھاری نفری کے ساتھ وارد ہوئی اور مسجد کو گرانے کے لیے چڑھ دوڑی۔ پولیس نے کارِ سرکار میں مداخلت پر مسجد کے امام اور نائب امام کو بھی گرفتار کرلیا۔ ان کی مداخلت صرف اتنی تھی کہ وہ مسجد میں موجود قرآن و حدیث اور دیگر اسلامی کتب کی ممکنہ بے حرمتی سے روکنا چاہتے تھے۔ اس واقعے پر تمام مکاتب فکر کے علما نے شدید احتجاج کیا ہے اور عدالت نے سی ڈی اے کے ایکشن کے خلاف حکم امتناع جاری کردیا ہے۔
اب آتے ہیں مندر کی تعمیر کے معاملے کی جانب۔ اس سلسلے میں دو خبریں نظر سے گزری ہیں، ایک یہ کہ سی ڈی اے نے احتجاج سے خائف ہو کر مندر کی تعمیر روک دی ہے۔ دوسری یہ کہ وفاقی وزارتِ مذہبی امور مندر کی تعمیر کے حق میں یہ جواز لائی ہے کہ قومی اسمبلی میں ہندو ایم این ایز نے 2017ء میں مندر کی تعمیر کے لیے درخواست دی تھی اور اس مندر کی تعمیر کے تمام اخراجات ہندو برادری برداشت کررہی ہے۔ اب لوگ پوچھ رہے ہیں کہ مندر کی تعمیر کے حق میں جواز پیش کرنا کیا مذہبی امور کی وزارت کے فرائض میں شامل ہے اور کیا وہ اسلام کے نام پر آباد ہونے والے شہر میں مندر کی تعمیر کا شرعی جواز پیش کرسکتی ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ حکومت اسلام آباد میں مندر کی تعمیر کے معاملے پر بند گلی میں پھنس گئی ہے اور ذلت و رسوائی کے سوا اس کے لیے کوئی راستہ نہیں بچا۔ ’’مسجد ڈھائو، مندر بنائو‘‘ کا نعرہ اس حکومت پر چپک کر رہ گیا ہے اور آنے والے دنوں میں اس کی روسیاہی میں اضافہ ہوتا رہے گا۔