جے آئی ٹی رپورٹ یا عزیر بلوچ کی آپ بیتی؟

1082

لیاری گینگ وار کے مرکزی کردار اور کالعدم پیپلز امن کمیٹی کے سربراہ عزیر بلوچ کی چھتیس صفحات پر مشتمل جے آئی ٹی رپورٹ منظر عام پر آگئی ہے۔ مختلف ایجنسیوں کی مشترکہ تحقیقات پر مشتمل یہ رپورٹ حقیقت میں عزیر بلوچ کی کہانی ان کی اپنی زبانی ہے۔ رپورٹ میں عزیر بلوچ نے اعتراف کیا ہے کہ اس نے 198افراد کو قتل کیا۔ ان میں رینجرز اور پولیس اہلکار بھی شامل تھے۔ رپورٹ میں پڑوسی ممالک سے عزیر کے روابط اور انہیں خفیہ معلومات فراہم کرنے کا اعتراف بھی شامل ہے۔ رپورٹ کے مطابق عزیر بلوچ نے اثر رسوخ استعما ل کرتے ہوئے سات ایس ایچ اوز، ایک ایس پی، ایک ٹی پی او اور ایڈمنسٹریٹر جنوبی کو تعینات کرایا۔ عزیر بلوچ اور اس کے قریبی عزیروں کے نام پر کئی ملکوں میں بے شمار جائدادیں موجود ہیں۔ عزیر بلوچ نے کراچی میں پولیس تھانوں اور تاجروں سے بھتا لینے کا اعتراف بھی کیا ہے۔ پاکستان میں کچھ عرصہ سے جرائم کی دنیا کے بے تاج بادشاہوں کی جے آئی ٹی رپورٹوں کے منظر عام آنے کا سلسلہ جاری ہے۔ جس رفتار سے انکشافات اور اعترافات سے مزین یہ رپورٹیں منظر عام پر آنے لگی ہیں اسے دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ جے آئی ٹی کو آپ بیتی کا نیا انداز اور جدید صنفِ سخن قرار دیا جائے گا۔
عزیر بلوچ پاکستان کی گزشتہ دہائیوں میں جاری خونیں ڈرامے کے ایک کردار کا نام ہے۔ ایک طرف یہ کردار ریاست کے اندر سے طاقت حاصل کر رہا تھا اور کئی سیاسی شخصیات اور حکومتیں اس نسل پرست وار لارڈ کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہی تھیں تو دوسری طرف پڑوسی ممالک بھی عزیر کے ذریعے پاکستان کے سب سے بڑے شہر میں اسٹرٹیجک ڈیپتھ تلاش کر رہے تھے۔ عروس البلاد کراچی ایک طرف لسانی بنیاد پر الطاف حسین ٹولے کے سپرد تھا تو دوسری طرف بلوچ آبادی کی بنیاد پر لیاری گینگ وار کی حاکمیت کے زیر سایہ تھا۔ یہ کابل، لبنان اور صومالیہ کی خانہ جنگی کے مناظر کی پاکستان منتقلی کا منظر تھا جہاں مسلح گروہوں کے زیر اثر آبادیاں لسانی، نسلی یا مسلکی ومذہبی بنیاد پر تقسیم کا شکار رہی ہیں۔ شاید اسی تقسیم کا تھا کہ کراچی گزشتہ دہائیوں میں اسی کی دہائی کے بیروت کا منظر پیس کر تا رہا۔ گینگز اور وارلارڈز کی بنیاد پر اس تقسیم کا فائدہ نہ مہاجر آبادی کو تھا نہ بلوچوں کو اس کا فائدہ یا تو ملک کے اندر ان کے ماسٹر مائنڈ اُٹھا رہے تھے یا بیرونی دنیا میں بیٹھے ہدایت کار۔ ٹارگٹ کلنگ اور دوطرفہ تصادم میں اگر کوئی مرتا تو اس کا تعلق انہی آبادیوں اور اسی ملک ومعاشرے سے ہوتا اور بھتا بالادست کرداروں کی جیب میں چلا جاتا۔ اس طرح عام آدمی کے حصے میں صرف موت، گھر بدری اور خوف ودہشت ہی آتا۔ اس تقسیم اور سر پھٹول کا دوسرا فائدہ ان بیرونی طاقتوں کو پہنچتا تھا جو پاکستان کے سب سے بڑے صنعتی اور کاروباری شہر کو عدم استحکام کا شکار بنا کر اپنے مقاصد کی تکمیل چاہتے تھے۔ صرف عزیر بلوچ ہی نہیں الطاف حسین بھی اپنی ڈوری حقیر مقاصد کے لیے بیرونی کرداروں کے حوالے کر چکے تھے۔ اس خانہ جنگی کے پس پردہ مقاصد میں سی پیک کے منصوبے کو فائلوں اور کاغذوں میں دفن کرنا اور پاکستان کو مستحکم اور مضبوط ریاست بننے سے روکنا تھا۔ اس کی معیشت اور سیاحت کو تباہ کرنا کرے اس کا بین الاقوامی سطح پر تعارف ایک شورش زدہ، خانہ جنگی کا شکار خوف ودہشت کے سائیوں کی زد میں آئے ہوئے ملک کے طور پر کرانا تھا۔ اس تعارف اور شناخت کے حامل ملک میں نہ کوئی سرمایہ کار قدم رکھتا اور نہ کوئی سیاح قریب پھٹکنے کا نام لیتا ہے۔ اس طرح عزیر بلوچ سے الطاف حسین تک کراچی کو غیر مستحکم، شورش زدہ اور خطرناک بنائے رکھنے کے پیچھے عالمی طاقتیں اور ایجنسیاں تھیں۔ ان کرداروں نے اپنے تفویض کردہ کام کو پوری ’’دیانت وامانت‘‘ سے پورا کیا۔
الطاف حسین نے کراچی کے بڑے حصے کو سیکٹر کمانڈرز اور ٹارگٹ کلرز کے ذریعے اپنی مٹھی میں بند رکھا تھا تو بلوچ علاقوں میں یہی کام عزیر بلوچ اور ان کا گینگ کر رہا تھا۔ یوں پاکستان میں ایک خونین کھیل بیرونی طاقتوں کی مدد سے پوری طرح جاری تھا۔ عزیر بلوچ اس کھیل کے چشم دید گواہ ہی نہیں مرکزی کردار ہیں۔ الطاف حسین کی طرح یہ شخص بھی کئی ملکوں کے لیے اسٹرٹیجک اثاثہ تھا اور وہ اسے الطاف حسین کی ہی طرح اُچکنے کو بے تاب اور تیار تھے۔ ایسا ہوجاتا تو عزیر بلوچ کسی اجنبی ملک میں الطاف حسین کی ہی طرح محو استراحت ہو کر ریاست پاکستان اور اس کے قانون کا مذاق اُڑا رہے ہوئے۔ پاکستان اداروں کی مستعدی نے عزیر بلوچ کو دبوچنے میں اہم کردار ادا کیا اور یہ سونے کی یہ چڑیا کسی اور کے ہاتھ لگنے کے بجائے اپنے سینے میں دفن رازوں سمیت پاکستان کے ہتھے چڑھ گئی۔ یوں عزیر بلوچ اب صرف ملکی ہی نہیں غیر ملکی کرداروں کے خلاف بھی سلطانی گواہ ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان کی مشترکہ تحقیقاتی رپورٹ وجہ نزع بن گئی تھی۔ اس رپورٹ کے منظر عام پر آنے سے بہت سے معزز پاکستانی کردار بے نقاب ہو رہے تھے۔ عزیر بلوچ سے پاکستانی اداروں کو ڈور کا ایک سرا ملا اگر الطاف حسین کو بھی اسی طرح پاکستان واپس لانے کا سامان کیا جائے تو بات پوری طرح کھل کر سامنے آسکتی ہے۔ پاکستان کے وجود اور اس کی بقا اور ساکھ کے ساتھ گزشتہ برسوں کیا کھلواڑ ہوتا رہا ’’اپنی کہانی اپنی زبانی‘‘ کے اس انداز سے پوری طرح سامنے آسکتی ہے۔