جے آئی ٹی، چور مچائے شور

656

حسب توقع پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی نے اصل مسائل سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے ڈھول پیٹنے والا کام شروع کر دیا ہے۔ دونوں پارٹیاں اپنا اقتدار بچانا چاہتی ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ لوگ ان سے ان کے وعدوں کا حساب نہ لیں اور جو کام حکومتوں کو کسی وعدے کے بغیر کرنے ہوتے ہیں ان کا حساب نہ مانگیں۔ پی ٹی آئی کا کھاتہ اس معاملے میں صفر بٹا صفر ہے۔ کیونکہ قیادت نو آموز ہے۔ اسے جھوٹ بولنے کا ڈھنگ بھی نہیں آتا۔ اپنے جھوٹ کو یوٹرن کا نام دے کر خوش ہوتے ہیں لیکن ان کا ہر قدم ملک میں تباہی لا رہا ہے۔ یہی حال سندھ حکومت کا ہے صوبائی حکومت کی کارکردگی بھی صفر ہے دونوں پارٹیوں نے بظاہر ایک دوسرے کے خلاف محاذ کھولا ہے لیکن درحقیقت یہ دونوں کی ملی بھگت ہے۔ لیاری گینگ وار کے عزیر بلوچ کی جے آئی ٹی رپورٹ کو دونوں پارٹیوں نے مذاق بنا رکھا ہے۔ ایک روز وفاقی وزیر پی ٹی آئی کے نمائندے علی زیدی اسمبلی میں جے آئی ٹی رپورٹ لہراتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ عزیر بلوچ نے انکشاف کیا ہے کہ فریال تالپور کو ایک کروڑ روپے ماہانہ بھتا جاتا تھا۔ اگلے روز پی پی پی والے پریس کانفرنس کرتے ہیں کہ یہ غلط ہے اصل جے آئی ٹی ہمارے پاس ہے اور پھر انہوں نے ایک جے آئی ٹی رپورٹ عام کردی۔ اب یہ مذاق کیوں ہو رہا ہے کہ جے آئی ٹی بنوائی کسی نے اس کے مندرجات ایک وفاقی وزیر لہرا رہا ہے اور سندھ حکومت ایک اور جے آئی ٹی سامنے لے آئی۔ یہ سوال علی زیدی سے تو پوچھا گیا ہے کہ انہیں جے آئی ٹی رپورٹس کون دے رہا ہے۔ یہی سوال سندھ حکومت سے بھی پوچھا جانا چاہیے کہ آپ کو کون جے آئی ٹی رپورٹس دے رہا ہے۔ ایک کی رپورٹ 43 صفحات پر مشتمل اور 4 اداروں کے دستخط ہیں، دوسرے کی رپورٹ (سندھ حکومت) 35 صفحات پر مشتمل 6 اداروں کے دستخط ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ جس جے آئی ٹی کی قانونی حیثیت نہیں اس پر دونوں حکومتیں اور میڈیا کیوں شور مچانے میں مصروف ہیں۔ بات بہت واضح ہے، سندھ حکومت کو کچرا نہ اٹھانے، واٹر بورڈ، بلدیات میں کرپشن اور اپنے لیڈروں کا تحفظ کرنا ہے اور وفاق کو ایک کروڑ ملازمتیں، 50 لاکھ گھر، آئی ایم ایف، غیر ملکی قرضے، کشمیر، پیٹرولیم قیمتیں، بجلی اور بہت کچھ کا حساب دینا ہے۔ یہ حکمران اپنی جانب سے توجہ ہٹوا کر میڈیا کے تعاون سے نیا تماشا لگا رہے ہیں۔ سوال تو یہ ہے کہ جے آئی ٹی رپورٹ جس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے اسے کیوں اچھالا جا رہا ہے۔ پیپلز پارٹی اپنے لیڈروں کے نام نہ ہونے کا دعویٰ کر رہی ہے لیکن عزیر بلوچ نے سیکڑوں پولیس افسر کیا پنجاب حکومت سے کہہ کر تعینات کرائے تھے۔ ظاہر ہے سندھ حکومت نے کیے ہوں گے۔ اسی طرح یہ بات کسی کو بتانے کی ضرورت نہیں کہ عزیر بلوچ کون ہے، بے نظیر بھٹو اور فریال تالپور کے ساتھ اس کی تصاویر ریکارڈ پر ہیں۔ ایک ووٹ ادھر اُدھر کرکے پیپلز پارٹی بغلیں نہ بجائے اور علی زیدی صاحب بیگانی شادی میں دیوانہ بنے ہوئے ہیں۔ وفاق تو صرف ڈالر، پیٹرولیم مصنوعات اور اب پی آئی اے کی تباہی کا جواب دینے کی کوشش کرے۔ اس کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہے اور وہ ادارے جو جے آئی ٹی میں شریک تھے جن کی سربراہی میں جے آئی ٹی قائم تھی وہ تو بتائیں کہ انہوں نے حکومت سندھ کو رپورٹ دی ہے یا وفاق کو یا عدالت کو۔ یہ پرانا کھیل برسہا برس سے کھیلا جا رہا ہے۔ پہلے بازاروں میں ایسا ہی تماشا لگا کر میراثی اور بھانڈ جگت بازیاں کرتے تھے اور ان کے شور کی وجہ سے مجمع لگ جاتا تھا۔ اس شور میں محو لوگوں کی جیبوں پر ان بدمعاشوں کے آدمی ہاتھ صاف کرتے تھے اب مجمع لگانے کا کام ٹی وی چینلز کے ذریعے ہوتا ہے اور جگتیں بھی اینکرز لگاتے ہیں۔ اب تو وزیروں نے جگت بازی کا کام سنبھال لیا ہے۔ عوام ان نو سربازوں سے ہوشیار رہیں۔ غیر متعلق بحثوں کو اہمیت نہ دیں۔ بجلی غائب ہے اس کے خلاف جماعت اسلامی نے دھرنے کا اعلان کیا ہے اس دھرنے میں شریک ہوں۔ نیپرا نے کے الیکٹرک کے خلاف عوامی سماعت کا اعلان کیا ہے زیادہ سے زیادہ لوگ اس میں جا کر شکایات درج کرائیں۔ کے الیکٹرک واٹر بورڈ، سندھ سالڈویسٹ مینجمنٹ بورڈ اور ایسے ہی اداروں کا گھیرائو کریں۔ علی زیدی جب سامنے آئیں تو ان سے پوچھا جائے کہ ان کی وزارت کیا کر رہی ہے۔ کبھی پی آئی اے کے معاملات میں بولتے ہیں کبھی جے آئی ٹی پر۔ جو لوگ خود مشتبہ، ان کی شہریت پر سوال، ڈگریوں اور ڈپلوما پر اعتراضات موجود ہوں وہ کیوں پاکی و امان کی حکایت لیے دوڑ رہے ہیں۔ یہ تو چور مچائے شور کی طرح ہو گیا۔ چور چور کا شور مچاتا ہوا چور سب سے آگے بھاگا جا رہا ہے۔ اس کے پیچھے جو چور ہے تھوڑی دیر بعد پتا ہی نہیں چلتا کہ چور کہاں گیا۔ لوگ خوامخواہ چوروں کے پیچھے دوڑے چلے جاتے ہیں۔بنیادی سوال یہ ہے کہ جن ذمے داروں کے دونوں جے آئی ٹیز پر دستخط ہیں، عدالت کے ذریعے ان سے کیوں نہیں پوچھا جاتا کہ کیا دستخط اصلی ہیں اور دونوں میں سے کون سی معتبر ہے۔ ہوا میں تیر چلانے کے بجائے اب معاملہ عدالت عظمیٰ کے سپرد کریں۔ علی زیدی اس پر تیار ہیں۔ ان کے پاس جو تین عدد جے آئی ٹی ہیں ان کے بارے میں انہوں نے بڑی دلچسپ بات کی ہے کہ کوئی ان رپورٹوں کو لفافے میں بند کرکے ان کے گھر کے اندر ڈال گیا۔ باقی جو معاملات عزیر بلوچ، بلدیہ فیکٹری میں آتش زدگی، اس میں ایم کیو ایم کا کردار اور پیپلز امن کمیٹی کی غارت گری اور اس میں پی پی حکومت کی پشت پناہی ہے تو عوام سب کچھ جانتے ہیں۔