سپریم کورٹ: نیب عدالتیں اور قانون ختم کرنے کا انتباہ

330

اسلام آباد ( نمائندہ جسارت/خبر ایجنسیاں)چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد نے ملک میں 120 نئی احتساب عدالتیں قائم کرنے کا حکم دے دیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ زیر التوا ریفرنسز کا تین ماہ میں فیصلہ کیا جائے، نیب کا ادارہ نہیں چل رہا، کیوں نہ نیب عدالتیں بند کر دیں اور نیب قانون کو غیر آئینی قرار دے دیں۔ لاکھڑا کول مائننگ پلانٹ بے ضابطگی ازخود نوٹس کیس میں چیف جسٹس گلزار احمد نے حکم دیا کہ سیکرٹری قانون متعلقہ حکام سے ہدایت لے کر نئی عدالتیں قائم کریں اور نئے ججز کی تعیناتی کی جائے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ بیس بیس سال سے نیب ریفرنسز زیر التواء ہیں، نیب ریفرنسز کا جلد فیصلہ نہ ہونے سے نیب قانون بنانے کا مقصد ختم ہو جائیگا، نیب ریفرنسز کا فیصلہ تو تیس دن میں ہونا چاہیے۔عدالت نے کہا لگتا ہے 1226 زیر التوا ریفرنسز کے فیصلے ہونے میں ایک صدی لگ جائے گی، نیب کا ادارہ نہیں چل رہا، کیوں نہ نیب عدالتیں بند کر دیں اور نیب قانون کو غیر آئینی قرار دے دیں۔ عدالت نے پہلے سے موجود 5 احتساب عدالتوں میں ججز کی تعیناتی کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ اگر ایک ہفتے میں تعیناتی نہ ہوئی تو سخت ایکشن لیا جائیگا۔سپریم کورٹ نے آئندہ سماعت پر اٹارنی جنرل، پراسیکیوٹر جنرل اور سیکرٹری قانون کو طلب کرلیا جبکہ چیئرمین نیب سے زیر التواء ریفرنسز کو جلد نمٹنانے سے متعلق تجاویز بھی مانگ لیں۔ بدھ کو جاری ہونے والے تحریری حکمنامہ میں کہا گیا ہے کہ آج ہونے والی سماعت میں اٹارنی جنرل، سیکرٹری قانون اور پراسیکیوٹر جنرل نیب پیش نہیں ہوئے، نیب عدالتوں کی کمی اور زیر التواء مقدمات میں تاخیر کی کوئی وجہ بھی نہیں بتائی گئی۔ تحریری حکمنامہ میں کہا گیا ہے کہ ملک میں کم از کم 120 نئی احتساب عدالتیں قائم کی جائیں، سیکرٹری قانون متعلقہ حکام سے ہدایت لے کر یہ نئی عدالتیں قائم کریں،120 نئی عدالتوں میں ججز کی تعیناتی بھی کی جائے۔ نیب کے وکیل نے سپریم کورٹ کو بتایا ملک بھر میں پچیس نیب عدالتیں ہیں جن میں سے پانچ عدالتوں میں ججز ہی نہیں ہیں،نیب کی پچیس عدالتوں میں 1226ریفرنسز زیر التوا ہیں۔چیف جسٹس نے پوچھا مقدمات پر کیوں فیصلے نہیں ہو رہے۔نیب وکیل نے جب یہ موقف اپنایا کہ کورونا کے سبب ریفرنسز پر کارروائی مکمل نہیں ہو رہی تو چیف جسٹس نے کہا 20 سال پرانے مقدمات زیر التوا ہیں،سن دو ہزار،دو ہزار ایک،دو ہزار دو او ر سن دو ہزار تین کے ریفرنسز بھی زیر التوا ہیں،بیس سال پرانے مقدمات پر فیصلے کیوں نہیں ہو رہے،محمد احمد صادق کا مقدمہ طویل عرصے سے زیر التو ا ہے یہ سیکرٹری تو انتقال کر گئے ہیں،نیب کیا کر رہا ہے،نیب کیوں سنجیدہ نہیں ہے۔نیب وکیل نے کہا جس مقدمے کی طرف عدالت نشاندہی کر رہی ہے اس میں ایک عدالت نے حکم امتناع جاری کیا ہے۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کوئی حکم امتناع نہیں ہے، جس بات کا آپ کو علم نہیں ہے وہ بات نہ کریں۔چیف جسٹس نے نیب ایک اور زیر التوا یفرنس کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا یہ 2001ء کا مقدمہ ہے یہ بندہ بھی فوت ہو چکا ہے،یہ کیا ہورہا ہے،کیوں فیصلے نہیں ہورہے، لاہور میں تین سو نیب ریفرنسز زیر التوا ہیں،نیب وضاحت کرے جن مقدمات کا فیصلہ تین ماہ میں ہونا تھا اْن پر بیس سال لگ گئے ایسا کیو ں ہے؟۔چیف جسٹس نے نیب کی خراب کارکردگی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے مزید کہا نیب کا ادارہ نہیں چل رہا،ہم نیب کے بارے میں خراب الفاظ استعمال نہیں کرنا چاہتے۔