جنازے فیصلہ کرتے ہیں

900

اتنا لکھا گیا، اتنا پڑھا گیا، اتنا بولا گیا اور اتنا کہا گیا کہ مجھے نہیں لگتا کہ کوئی پہلو تشنہ ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ یہ سب لکھنا، پڑھنا، سننا سنانا کیا صرف جماعت کے پلیٹ فارم سے ہے۔ کیا وہ سیّد زادہ جو اس دنیا کے سمندر کو پھلانگ کر افق کے اس پار اپنے رب کی قائم کردہ جنتوں میں چلا گیا صرف جماعت اسلامی ہی کا رکن، سابق امیر اور مربّی ورفیق تھا؟ یا کیا کوئی اور بھی تھا جو اس کی محبتوں، محنتوں اور شہادتوں کا گواہ ہے؟ یہ سوال میں کل سے پوچھ رہی ہوں جماعتی حلقہ احباب میں تو گویا اک بھگدڑ سی مچ گئی ہے ہر شخص نڈھال ہے، ہر آنکھ اشکبار ہے ہرگھر میں ملال ہے کہ مرشد، سیدی، رفیق، دین دوست، خدا پرست، اصلی نظریاتی جماعتی ہم سے رخصت ہوگئے۔ مگر اخبارات کی سرخیوں نے واضح طور پر بتا دیا، عمومی گروپس اور عمومی افراد کے اسٹیٹس اور ڈی پیز پر لگی سیّد منور حسن صاحب کی (جنہیں مرحوم لکھتے جگر کٹ رہا ہے) تصاویر نے اعلان کر دیا کہ سیدی صرف تمہارا اثاثہ ہی نہیں تھے جماعتیو وہ تو ہر درماندہ دل کی آوازتھے، وہ کراچی والوں کی لاوارثی کے دور کا مضبوط سہارا تھے کہ جب لاشوں پر ان کے اپنوں کو رونے کی اجازت نہیں تھی خوف کے ان پہروں میں مرشد سیدی آگے بڑھ بڑھ کر ان لاشوں کے انصاف کی بات کیا کرتے تھے۔
جب کشمیر اور کارگل جیسے حساس ایشوز پر خود آہنی اداروں کو چپ لگ گئی تھی ایسے وقت میں ہر اک کو باور کرایا کہ عہدے تو آنے جانے ہیں اداروں کو بچانا لازم ہے، یہ سید منور حسن صاحب کی آواز آہن تھی کہ جس نے جھوٹے بزدل فرد اور ادارے کو الگ الگ کرکے حق کا پرچم لہرایا تھا جس سچ سے نمو پاکر برسوں بعد اس ملک کی عدلیہ کو بھی جوش آیا کہ معزز ترین ادارے میں بھی گھٹیا ترین شخصیات پنپتی ہیں ہمیں اداروں کو قربان کرنے کے بجائے ان گھٹیا ناسوروں کو نکال پھینکنا ہوگا۔ میرا یقین ہے کہ مشرف کے فیصلے کے پیچھے اعلیٰ عدلیہ کو کہیں نہ کہیں سیدی کی ذات سے، صفات سے بیانات سے ضرور حوصلہ ملا ہوگا کہ سیدی کی آواز وقت کے ایوانوں کو للکارنے والی واحد اور تنہا آواز تھی، میں نے موثر افراد یعنی ڈاکٹرز پروفیسرز اور دیگر موثر شعبہ ہائے زندگی سے منسلک افراد کے گروپس میں سیدی کے انتقال کی خبر ڈالی تو حیران رہ گئی کہ مجھے مجھ سے زیادہ پر خلوص دعاؤں اور تعزیتی پیغامات سے اس طرح نوازا گیا کہ گویا بزبان خاموشی مجھے کہہ رہے تھے کہ: سید منور حسن صاحب پر اپنی اجارہ داری نہ دکھاؤ وہ تو ہر اہلِ علم، اہلِ درد، اہلِ کراچی، اہلِ پاکستان اور اہلِ اسلام کا اثاثہ تھے۔
جس طرح حسن البنا، زینب الغزالی، سید قطب، مولانا مودودی، میاں طفیل، قاضی حسین احمد، صدر مرسی اور ان جیسے ہزاروں تحریکی اور نظریاتی لوگوں کو ہم خطوں، براعظموں، ممالک، مسالک، فرقوں اور علاقوں تک محدود نہیں کر سکتے یہ سب تو تاریخ کے بہتے جھرنے تھے جن سے نہ جانے کتنے ہی نابغۂ روزگار ہستیوں نے فیض پایا جیسے سمندروں کو کوئی کبھی بھی محدود نہیں کر پایا کہ اپنے پانی کے فیض کو روک لو ایسے ہی ان شخصیات کے فیوض وبرکات کو نہ کوئی روک پایا نہ روک پائے گا اور نہ ہی محدود کر سکے گا کہ یہ حاصلِ زیست جواہر پارے ربّ کے تھے اور ربّ ہی کے لیے تھے سو ان کا فیض بھی چہار دانگ عالم میں پھیلے گا اور ان کی قبروں کو قیامت تک روشن منور اور فراخ کرتا رہے گا ان شاء اللہ۔ ہمارے لیے باعث اعزاز یہ ہے کہ سیدی ہمارے تھے ہماری تحریک کا اٹوٹ انگ، روشن ستارہ، آفتاب، مہتاب سب ہی کچھ تھے، اب یہ ہم پر ہے کہ ہم ان کے بیٹے، بیٹیاں ہونے کے دعویدار کہاں، کیسے، کس طرح اور کب تک اپنے نظریات کو اپنے ربّ کے دیے کام کو اور ان ہستیوں کے ساتھ اپنے وعدے کو نبھاتے ہیں۔
سید منور حسن آپ کی تقریروں، تحریروں اور دروس سے تو ہم عمل کے موتی کشید کرتے ہی تھے آپ کے جنازے نے تو تحریکیوں کے اندر نیا ولولہ، نیا جذبہ نیا جوش بھر دیا ہے اس کورونا کے دور میں کہ جب سب مرنے سے اس لیے ڈر رہے تھے کہ جنازہ کتنا کم ہوگا؟ اب معلوم ہو گیا کہ کورونا ہو یا آندھی طوفان بندہ سید منور حسن ہو تو جنازے میں لوگ اور فرشتے امڈ امڈ پڑتے ہیں، ہمارے فیصلے جنازے ہی کریں گے۔ بس سیدی جیسا زادِ راہ اکھٹا کرادے میرے رب، اب تو یہی عرضی ہے تجھ سے کہ زادِ راہ کے لیے گھلنے والا دل عطا کرکے اسے قبول بھی فرما اور سید منور حسن سے راضی ہو جا اور ان کو اور دیگر تمام تحریکی اکابرین و ساتھیوں کو اپنی رحمت بھری جنت کا مکین بنا دے اور قیامت کے دن حوض کوثر کے کنارے نبی اکرمؐ کے ساتھ اور ان سب کے ساتھ ہماری ان سب سے ملاقات کرادے۔ آمین