عیاد جہانگیر اور بے حس عالمی ضمیر

615

بھارتی فورسز کی درندگی انتہا کو پہنچ گئی۔ مقبوضہ کشمیر میں قابض فوج نے سو پور میںساٹھ سالہ شخص کو تین سال کے نواسے کے سامنے شہید کر دیا۔ بچہ عیاد جہانگیر سہما ہوا نانا کی نعش پر بیٹھ کر روتا اور مدد کو پکارتا رہا۔ عیاد جہانگیر کو بھارتی اہلکار گاڑی میں بٹھا کر لے گئے اور بسکٹ دلانے کا کہا، معصوم ہچکیاں لیکر نانا کو یاد کرتا رہا۔ مقتول بشیر احمد خان کے بیٹے کا کہنا ہے کہ ان کے والد سامان لینے کا کہہ کر گھر سے نکلے تھے تو قابض فورسز نے والد کو کار سے اُتارکر گولیاں مار دیں۔ جس وقت پولیس نے بچے کو اپنی تحویل میں لیا اس وقت وہ انتہائی خوفزدہ نظر آرہا تھا۔ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں ظلم و درندگی کی انتہا کردی گئی ہے۔ تین سالہ معصوم فرشتے کے سامنے اس کے نانا کو گولیوں سے بھون ڈالنے کے واقعہ نے دل دہلا دیے ہیں۔ اس سے بڑی درندگی کا عملی مظاہرہ نہیں کیا جاسکتا۔ یورپی یونین کو تمام صورتحال سے آگاہ کیا ہے۔ یہ واقعہ ماورائے عدالت قتل کے زمرے میں آتا ہے۔ پاکستان اس واقعے کو بھی ہر فورم پر اٹھائے گا۔
مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فورسز کی درندگی اور سفاکیت میں اضافہ ہورہا ہے۔ وادی میں انسانی حقوق نہ صرف معطل ہیں بلکہ ان کی بری طرح پامالی بھی کی جاتی ہے۔ گیارہ ماہ سے نہتے کشمیری کرفیو کی پابندیوں میں جکڑے ہوئے ہیں‘ گھر سے کوئی بھی شخص اجازت کے بعد نہیں نکل سکتا۔ ایسے لوگوں کو بشیر احمد کی طرح وحشت ناک انجام سے دوچار کردیا جاتا ہے۔ جس روز معصوم نواسے کے سامنے اس کے نانا کو بے دردی سے شہید کیا گیا‘ اسی روز ایک جعلی اپریشن کے دوران راجوڑی میں دو نوجوانوں کو بھی شہید کردیا گیا۔ بھارت میں کورونا کے سدباب کے لیے لاک ڈائون کیا گیا تھا۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کو کورونا کی کوئی پروا نہیں‘ کشمیریوں کو محض اس اقدام کیخلاف احتجاج سے باز رکھنے کے لیے محصور کردیا گیا جس کے تحت کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی گئی اور لداخ کو یونین ٹیرٹیری کا حصہ بنالیا گیا۔ کشمیری اس اقدام کو تسلیم کرنے کے لیے کسی صورت تیار نہیں ہیں۔ ان کو جب بھی موقع ملتا ہے‘ کرفیو کی پابندی توڑ کر مظاہرے کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ کس طرح کا بہیمانہ سلوک روا ہوتا ہوگا‘ اس کا اندازہ ایک پرامن شہری کے گھر سے نکلنے سے لگایا جا سکتا ہے جسے اس کے باوجود شہید کردیا گیا کہ اس کے ساتھ تین سال کا بچہ بھی تھا۔
ایک طرف مقبوضہ وادی کے شہری علاقوں میں کرفیو کی پابندیاں ہیں تو دوسری جانب انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں اور آزاد عالمی میڈیا کو وادی میں داخل نہیں ہونے دیا جاتا۔ دوسرے ممالک کے پارلیمنٹیرین کو تو کجا‘ اپنے ملک کی اپوزیشن کے عوامی نمائندوں کے داخلے پر بھی پابندی ہے۔ وادی میں بھارتی فورسز کے نہتے لوگوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کا بہت سا حصہ دنیا کے سامنے نہیں آسکتا جو کچھ سامنے آتا ہے‘ وہ بھی انسانی ضمیر کو جھنجوڑنے کے لیے کافی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فورسز ظلم وجبر کے تمام حربے اور ہتھکنڈے آزما رہی ہیں‘ بھارت کے اندر سے بھی اقلیتوں کے حوالے سے خیر کی خبریں نہیں آرہیں۔ انسانیت کی تذلیل، بھارت کا پسندیدہ مشغلہ بن گیا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق بھارتی ریاست کرناٹک میں کورونا سے ہلاک افراد کی بے حرمتی کی گئی۔ مسلمانوں اور مسیحیوں کی لاشیں گڑھوں میں پھینکی جانے لگیں جس کی دلخراش ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی۔ مسلمانوں اور مسیحیوں کو مذہبی رسوم کی اجازت بھی نہیں ملتی۔ تجہیز و تکفین کے بجائے مرنے والوں کو کوڑے کے ڈھیر میں دفنایا جاتا ہے۔
سوپور میں بشیر احمد کو جس طرح شہید کیا گیا‘ اس کی ویڈیو تو سامنے نہیں آسکی جس سے پتا چلتا کہ انہیں کس طرح بہیمانہ طریقے سے شہید کیا گیا تاہم ان کی شہادت کے بعد جس طرح ان کا نواسہ نعش کے قریب بیٹھا ہے‘ اس نے انسانیت کی رمق تک رکھنے والے ہر دل کو دہلاکے رکھ دیا۔ دیکھنا ہوگا یہ تصویر عالمی ضمیر کو بھی جھنجھوڑتی ہے یا عالمی برادری اس پر بھی بے حسی کا مظاہرہ کرے گی۔ اس تصویر کو دیکھ کر لوگ دل گرفتہ ہیں۔ بھارتی فورسز کی مذمت کے بیانات بھی جاری ہوںگے جن کا بھارت نے پہلے اثر لیا نہ اس پر اب کوئی فرق پڑے گا۔ بھارت کی اس ہٹ دھرمی اور دیدہ دلیری سے یہی تاثر ابھرتا ہے کہ وہ کسی دبائو اور عالمی قانون کو خاطر میں نہیں لاتا۔ انسانی حقوق کے علمبردار سارا منظر نامہ خود پر طاری کرکے سوچیں تو ان پر واضح ہو سکے گا کہ انہیں کیا کرنا چاہیے۔ بھارت کو متعلقہ عالمی ادارے اور بااثر ممالک مزید ظلم و ستم جاری رکھنے کا موقع نہ دیں۔ مسئلہ کشمیر کے حل اور بھارت میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے زبانی جمع خرچ نہیں‘ عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ بھارت کی ایسی دیدہ دلیری صرف کشمیریوں کے لیے ہے‘ لداخ میں یہی بھارت چین کے سامنے بھیگی بلی بنا ہوا ہے۔