سید منور حسن کی رحلت: قوم گونگی ہو گئی

1031

اللہ تعالیٰ نے قرآن میں اپنی سب سے بڑی صفت رحمت کے سب سے بڑے اسم ’’رحمن‘‘ کا ذکر کرکے انسانوں پر کی جانے والی اپنی سب سے بڑی تین رحمتوں کا ذکر کیا ہے ۱۔ علم القرآن (قرآن کا علم دیا) ۲۔ خلق الانسان (انسان کی تخلیق کی) اور ۳۔ علمہ البیان (بیان کا علم دیا)۔ یعنی بولنے کا علم، بیان کی صلاحیت انسان کے ساتھ کی جانے والی تین بڑی نعمتوں میں سے ایک ہے۔ بیان کی قدرت والے مقرر، نطق کی استطاعت رکھنے والے واعظ، جماعت، قوم و ملک کا حسن، اس کی زینت، اور اس کا وقار ہوتے ہیں۔ علم القرآن کے بعد اچھی تقریر اور ابلاغ کی صلاحیت رکھنے والے افراد اپنی جماعت اور ملت کے قد و کاٹھ میں اضافہ کرتے ہیں۔
سیدنا موسیٰؑ کو جب اللہ تعالیٰ نے فرعون کے دربار میں جا کر بیان دینے اور اسے اللہ سے ڈرانے کو کہا تو انہوں نے استدعا کی کہ میرے بھائی ہارون کو بھی میرے ساتھ کر دیجیے۔ سیدنا موسیٰؑ کی یہ خواہش بھی ان کے بھائی کی قوت بیانی کے باعث تھی۔ علامہ اقبالؒ نے جب از سر نو امت کی تشکیل کی خواہش کی تو اس میں جن تین خوبیوں کا مرکب بنایا اس میں شان و شوکت اور دبدبہ ترکوں کا، ذہانت ہندوستان کی اور نطق یعنی فصاحت و بلاغت عربوںکی لی۔ وہ مستقبل بینی کرتے ہیں:
عطا مومن کو پھر درگاہ ِحق سے ہونے والا ہے
شکوہِ ترکمانی، ذہنِ ہندی، نْطقِ اعرابی
بیسویں صدی کے اوائل میں برصغیر میں ملت اسلامیہ کے بہت پائے کے مقررین ابھرے جن کی اکثریت کا توتی نصف صدی تک بولتا رہا۔ مولانا محمد علی جوہر، مولانا ابوالکلام آزاد، عطا اللہ شاہ بخاری، مولانا ظفر علی خاں، نواب بہادر یار جنگ وغیرہ ایک طویل فہرست کے چند بڑے نام ہیں۔ نواب بہادر یار جنگ کا ایک مشہور فقرہ ہے کہ ’’اچھے مقرروں کے بغیر ایک قوم گونگی ہوتی ہے‘‘۔ ہم جس دور سے گزرے اور گزر رہے ہیں واقعی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہماری قوم گونگی ہو چکی ہے۔ جو لوگ بڑے مقرر بننا چاہتے ہیں وہ مطالعہ نہیں کرتے۔ اور مطالعہ کے بغیر مکالمہ بغیر پانی کا پیالہ ہوتا ہے۔ جو کچھ علم کے کٹورے میں جمع کیا گیا ہو وہی چھلکتا ہے۔
سید منور حسن کو سن کر بہت خوشگوار حیرت ہوتی تھی کہ یہ کون ہے جو بیسویں صدی کے آخر میں اُسی آواز، اُسی آہنگ اور اُسی لب و لہجہ میں بات کرتا ہے، جن کا تذکرہ ہم نے کتابوں میں پڑھا تھا۔ فصاحت اور بلاغت کی تاریخ کے اوراق سے نکل کر اچانک یہ کون آگیا ہے جو اکیسویں صدی میں بھی اسی طرح بول رہا ہے؟ اس کی بات میں بھی سلیقہ ہے اور بات کہنے کا بھی سلیقہ ہے۔ ان کی تقریر، ان کی باتیں کیا تھیں؛ قرآن کی آیات، حدیث کے مندرجات، عشق رسول، اقبال کی شاعری، فکر مودودی، حالات حاضرہ، سماجی اور سیاسی مسائل، حریت پسندی، جذبہ جہاد، اور شوق شہادت۔ بہت خوبصورتی سے اپنی تقریر کا تانا بانا بنتے تھے اور الفاظ کا دریا بہاتے چلے جاتے تھے۔ میں فن تقریر سے زیادہ واقف نہیں ہوں۔ جو لوگ اس فن کو جانتے ہیں، مجھے امید ہے کہ وہ ان کی تقریروں کو فن کے بہت اعلیٰ معیار پر پائیں گے۔ میرے لیے تو ان کی تقریر گویا ایک مجاہد کا نغمہ تھا۔ وہ نثر میں غزل کہتے تھے۔
اسلام کے دائرہ کے اندر بھی ہمیشہ سے دو قسم کے افراد ہوتے ہیں۔ ایک اہل عقل دوسرے اہل جنوں۔ یہ دو قسم کے لوگ دو مختلف مزاج کے ہوتے ہیں۔ پہچان یہی ہے کہ ان دونوں میں کبھی بنے گی نہیں۔ پہلے گروہ کے پسندیدہ الفاظ ’’مصلحت‘‘، ’’دور اندیشی‘‘، ’’ابھی وقت نہیں آیا‘‘ وغیرہ ہوں گے۔ دوسرا عشق کی بازی کے لیے ہر وقت تیار ہوتا ہے۔ وہ عجیب قسم کے اضطراب کی کیفیت میں مبتلا ہوتا ہے۔ بقول شاعر: ایک درد ہے جو شام سے اٹھے ہے سحر تک ایک سوز ہے جو صبح سے تا شام رہے ہے۔ اور ’’عشق کی ایک جست نے طے کردیا قصہ تمام‘‘۔ وہ کھاتے ہوئے کھجور کو چھوڑ کر میدان کارزار میں کود جاتا ہے اور جام شہادت نوش کر لیتا ہے۔
سید منور حسن اس دوسرے زمرے کی شخصیت ہیں اور اسی قسم کی شخصیات ہماری بھی ہمیشہ سے پسندیدہ شخصیات رہی ہیں۔ سید منور حسن کے ہاتھ میں جب بھی مائیک آیا انہوں نے کلمہ حق ہی بلند کیا، خواہ مشرکوں کو، منافقوں کو اور مصلحت پرستوں کو کتنا بھی ناگوار گزرے۔ ایک ایسے وقت میں جب امریکا کی نام نہاد دہشت گردی مخالف جنگ کے نام پر اسلام پسندوں کا ناطقہ بند کیا جا رہا تھا اور ریاست اور وردی کی دہشت طاری تھی اس وقت انہوں نے سوال کیا کہ ’’اگر کوئی امریکی فوجی شہید نہیں کہلایا جا سکتا تو پھر اس کا ساتھ دینے والا پاکستانی کیسے شہید ہو سکتا ہے؟‘‘۔ یہ سوال پاکستان کی مقتدرہ سے ہضم نہیں ہوا اور سید کی کردار کشی کی مہم چلائی گئی۔ انہیں غدار وطن تک کہا گیا۔ انہیں اپنے الفاظ واپس لینے کو کہا گیا لیکن سید منور حسن نے اپنے الفاظ واپس نہیں لیے۔ اگر دیکھا جائے تو سید کا یہ سوال پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا سوال، اور سب سے بڑا سچ تھا۔
ایک الیکشن میں جب جماعت اسلامی نے مسلم لیگ نواز کو کاندھا فراہم کرنے سے انکار کر دیا تو نواز شریف نے جماعت اسلامی کو توڑنے کی کوشش شروع کردی۔ متعدد ’’اسلام پسند‘‘ صحافیوں کو اس کام پر مامور کیا گیا۔ اور ایک منظم کوشش ہوئی۔ اس زمانے میں میرا قلم (کالم: تیسرا نقط) جماعت کی قائم کردہ پاکستان اسلامک فرنٹ کی حمایت میں اور جماعت کو تنظیمی طور پر بچانے میں لگا رہا۔ برادر شاہنواز فاروقی نے بھی یہی محاذ سنبھالا ہوا تھا۔ ہم اپنے اس قلمی جہاد کے باعث محترم قاضی حسین احمد اور سید منور حسن کے دلوں میں بستے تھے۔ جب 1998 میں امریکا آگیا تو جسارت کی باضابطہ کالم نویسی کا سلسلہ بند ہوا۔ لیکن گاہے گاہے لکھتا رہتا تھا اور اب بھی لکھ رہا ہوں۔ دوران امارت جماعت اسلامی پاکستان سید منور حسن کا کم از کم ایک خط ای میل کے ساتھ نتھی کیا ہوا ملا تھا۔ جس میں خیریت کے بعد تواتر سے کالم لکھنے اور مستقل رابطہ میں رہنے کی تلقین کی گئی تھی۔
سید منور حسن کے دور امریکا کے دوران یہ سوال کیا گیا کہ جماعت اسلامی کی الیکشن میں ناکامی اور اقتدار سے محرومی کی اصل وجہ کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ جماعت کے لیے حکومت بنانا کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔ ’’مقتدرہ‘‘ حکومت بنانے کے ایک فارمولے پر راضی نامہ مانگتی ہے، اس پر ہاں کر دیا جائے تو جماعت اسلامی کو حکومت مل سکتی ہے۔ لیکن ہم اس کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ہم یہ سن کر بہت حیران ہوئے تھے۔ اب سوال یہ ہے کہ جب سیاسی حکومت وردی کی مرضی کے بغیر نہیں بن سکتی ہے تو جماعت اسلامی انتخاب میں حصہ ہی کیوں لیتی ہے؟
اس کا جواب بہت سادہ سا ہے اور صحیح بھی ہے کہ انتخاب کے دوران ہر گھر تک جماعت اسلامی کی دعوت پہنچ جاتی ہے۔ آخر عوام تک پہنچنے کے اس بہترین موقع کو کیوں ضائع کیا جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ اللہ نے ہمیں بات پہنچا دینے کا ہی مکلف بنایا ہے نہ کہ حکومت بنا لینے کا۔ جو جماعتیں انتخاب سے باہر ہیں وہ سیاسی سطح پر ناقابل ذکر ہیں۔
سید منور حسن کی رحلت سے صرف جماعت اسلامی ہی نہیں بلکہ پاکستان ایک عظیم شخصیت سے محروم ہوگیا ہے۔ تحریکی مزاج رکھنے والا ایک مدبر، ایک بڑا سیاستداں رخصت ہوا۔
میں ہر اس شخص کا حیرانی سے منہ تکتا ہوں جب وہ یہ سوال کرتا ہے کہ اگر نواز شریف نہیں تو پھر کون؟ اور اب اگر عمران خان نہیں تو دوسرا کون؟ حیرت ہے ان کو اتنی عظیم الشان، دین دار، دیانت دار، امانت دار، اور سچا اور کھرا لیڈر نظر ہی نہیں آتا۔ قاضی حسین احمد گزر گئے، سید منور حسن گزر گئے، ایک درویش صفت سراج الحق امارت کے منصب پر ہے۔ ایک پوری منظم اور بڑی جماعت صادق و امین کی ان کے ساتھ موجود ہے۔ اور اب بھی سوال کر رہے ہیں کہ دوسرا کون؟ میرا سوال ہمیشہ سے یہی رہا ہے کہ جماعت کے علاوہ دوسرا کون؟