اور کرو میں ہوں… میں ہوں

672

ایک مشاعرے میں شاعر غزل پڑھ رہے تھے اس میں ہر شعر ان الفاظ پر ختم ہورہا تھا… میں ہوں… اس پر کوئی چلبلا سامع شعر ختم ہونے سے قبل کھڑا ہو کر زور زور سے سینے پر ہاتھ مار کر کہتا تھا کہ میں ہوں، میں ہوں، مشاعرہ خراب ہورہا تھا تو استاد شاعر نے ایک مصرع پڑھا… ناریل جس کے ہاتھ لگا وہ بندر… اور وہ سامع چیخ چیخ کر کہنے لگا… میں ہوں… میں ہوں… آج کل پابندیوں کا زمانہ ہے ہر چیز کا ایس او پی ہے اس لیے ہم بھی ایس او پی کے مطابق مشاعرے کا حوالہ دے کر بات شروع کررہے ہیں۔ یہ حوالہ اس لیے دیا کہ اس سامع کی حرکت اور پاکستانی حکمرانوں کی حرکتوں میں کوئی فرق نہیں… سامع اس لیے زور زور سے چیختا تھا کہ اسے شاعری تو آتی نہیں چیخنے سے لوگ میری طرف دیکھنے لگیں گے۔ یہی حال ہمارے حکمرانوں کا ہے۔ اگر جنرل پرویز مشرف سے شروع کیا جائے تو بہتر رہے گا۔ حال تو اس سے پہلے والوں کا بھی یہی تھا لیکن ذرا کم کم۔ جنرل پرویز جب آئے تو مغرب کو یہ جواب دیتے تھے کہ دنیا بھر میں دہشت گردی اور آزادی کی تحریکوں میں فرق کیا جانا چاہیے۔ کشمیر میں حریت کی تحریک چل رہی ہے اور مقامی لوگ احتجاج کررہے ہیں۔ وہ یہ تسلیم نہیں کرتے تھے کہ پاکستان سے کوئی مداخلت ہوتی ہے۔ لیکن پھر انہوں نے یوٹرن لیا۔ کشمیری مجاہد دہشت گرد قرار پائے۔ پاکستان سے کسی کو بھی کشمیر سرحد پار کرنے سے روکنے کے لیے باڑھ سمیت دیگر رکاوٹیں قائم کیں۔ اور پھر دنیا نے کہنا شروع کیا کہ پاکستان کشمیر میں دہشت گردی کرارہا ہے۔ اور آج جو حال ہے وہ اسی کا کمال ہے ان کے بعد آنے والی پیپلز پارٹی کی حکومت کو ایسا وزیر داخلہ ملا کہ اس نے پورے بھارت میں دہشت گردی کا اعتراف کرلیا۔ ان کے پاس تو 9/11 طرز کی معلومات تھیں یا فواد چودھری جیسی۔ دہشت گردوں نے کشتی کہاں سے
خریدی، بندوق کہاں سے لی اور گولیاں کہاں سے لائے کس راستے سے ممبئی پہنچ کر تاج محل ہوٹل پر حملہ کیا۔ رحمن ملک صاحب فواد چودھری تک نہیں پہنچے تھے ورنہ بتادیتے کہ کھارادر میں 150 گٹکے کس دکان سے اُدھار لیتے تھے جو بعد میں انہوں نے چکایا۔
اس قسم کے اعترافات بے نظیر بھٹو بھی کرتی رہی تھیں۔ میاں نواز شریف کی حکومت بھی پیچھے نہیں رہی لیکن ساری پارٹیوں کے لبرلز کو جمع کرکے جو پارٹی بنائی گئی اس میں ہر وزیر دوسرے سے دو ہاتھ آگے ہے۔ کبھی فواد چودھری صاحب ملک کے سیٹلائٹ، انٹرنیٹ، سائنس سے متعلق تمام امور کو چھوڑ کر عید و رمضان کا چاند دیکھنے میں لگ جاتے ہیں۔ کبھی رویت ہلال کمیٹی ختم کرنے کے درپے ہوتے ہیں۔ اپنا کام نہیں کرتے لیکن سب سے بڑا چھکا پاکستان کے وزیر ہوا بازی غلام سرور خان نے مارا۔ اس چھکے نے پاکستانی فضائی صنعت کے چھکے چھڑا دیے۔ دنیا بھر میں پابندیاں لگ گئیں۔ غلام سرور نے قومی اسمبلی میں بیان دے دیا کہ پی آئی اے کے پائلٹس کی اکثریت کے لائسنس جعلی ہیں۔ تقریباً دو سو سے زیادہ کی تعداد کا دعویٰ کیا پھر تعداد کم ہوتے ہوتے ڈیڑھ سو کے لگ بھگ رہ گئی۔ پائلٹوں کے لائسنس کا طریقہ کیا ہوتا ہے۔ جعلی اور اصلی لائسنس کیا ہوتا ہے۔ اس سے وہ بالکل ناواقف تھے۔ شاید اسی لیے اس شعبے کا وزیر بنایا گیا تھا۔ جس چیز کے 8 ٹیسٹ ہوتے ہیں اس
کے 9 ٹیسٹوں میں پائلٹوں کو فیل کردیا۔ چوں کہ باقی ساری کابینہ بھی ایسی ہی صلاحیت کی حامل ہے۔ یعنی کمال فن میں یکتا ہے اس لیے کسی نے توجہ دلائی نہ تصحیح کرائی بلکہ علی زیدی بھی اچھلے تو مراد سعید بھی بولے۔ ایک دن وفاقی کابینہ نے پائلٹوں کے جعلی لائسنس منسوخ کرنے کی منظوری دی، اس کے اگلے دن حکومت کے ترجمان شبلی فراز نے اطلاع دی کہ پی آئی اے سیرین ائر اور تمام ائر لائنز کے پائلٹس کے لائسنس مصدقہ ہیں اور سو فی صد درست ہیں۔ یہ ایک دن میں کیا ماجرا ہوگیا۔ کئی اخبارات میں خبر لگی کہ کابینہ نے مشتبہ لائسنس منسوخ کرنے کی منظوری دے دی اور اگلے روز وفاقی وزیر نے بتایا کہ تمام پائلٹس کے لائسنس مصدقہ ہیں سب کی تصدیق کرلی۔ کوئی حکومت کوئی منصوبہ وقت پر مکمل نہیں کرتی بلکہ بسا اوقات مکمل ہی نہیں کرتی۔ اس حکومت نے چند گھنٹوں میں سیکڑوں پائلٹوں کی اسناد کی تصدیق کرلی اور سب کو کلیئر قرار دے دیا لیکن ساری دنیا کی فضائی کمپنیوں اور حکومتوں کو کون قائل کرے گا۔ وزیر ہوا بازی تو کچھ اور کہہ کر خاموش ہوگئے اور وزیر اطلاعات تردید کررہے ہیں۔ وزیر ہوا بازی نے اس مشاعرے والے سامع سے بڑھ کر ’’میں ہوں‘‘ کا نعرہ لگایا تھا اب جتنی لیپا پوتی کرلیں پاکستانی فضائی صنعت کو مکمل طور پر ڈبو دیا گیا ہے۔ پی آئی اے کو پرائیوٹائز کرنے کی سرتوڑ کوششوں میں ناکامی کے بعد ایسے ہی ہتھکنڈے اختیار کیے جانے تھے۔ اگر وزیر ہوا بازی کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہوئی تو یہ بات ثابت ہوجائے گی کہ یہ سامع اسی مقصد کے لیے کابینہ میں بٹھایا گیا تھا کہ جب دنیا بھر میں پائلٹوں کی صلاحیتوں کا ذکر آئے اور کوئی انگلی اٹھے تو یہ ہاتھ اٹھا کر تصدیق کردیں۔
معاملہ صرف پائلٹوں کا یا دہشت گردی اور کشمیر کی تحریک کا نہیں ہے۔ ہمارے حکمران ہر معاملے میں دنیا کے سامنے پاکستان کو بدنام کرتے رہتے ہیں جب خواتین کے حقوق کی بات ہوتی تھی امریکا پاکستانی کابینہ میں خواتین کی شمولیت پر اصرار کرتا تھا اس وقت حکمران اور پاکستانی میڈیا ہر اس شعبے کا گھیرائو کرتے تھے جہاں قوانین نہ ہوں۔ پھر پولیو آیا اور میڈیا کی چاندی ہوگئی یا سرکڑاہی میں ہوتا تھا۔ پاکستان میں پولیو کا، ایک اور مریض… سامنے آگیا ہے۔ یہ اعلان ایسا ہوتا تھا اس پر اتنا زور ڈالا جاتا تھا جیسے اکتوبر 2005ء کا زلزلہ آگیا ہو… اور پھر ساری دنیا نے پاکستان سے آنے والوں پر پابندیاں لگادیں۔ پولیو ویکسین کے دریا بہادیے گئے۔ پولیو سے پاک ہونے کے سرٹیفکیٹ لازمی ہوگئے، ساری دنیا میں پاکستانیوں کو سفر میں مشکلات ہونے لگیں، سبب کیا تھا۔ صرف… میں ہوں… میں ہوں… آج کل جو ساری دنیا میں پھیلا ہوا ہے اس کا ذکر کرنے سے وہ خود بھی ناراض ہوتا ہے اور اس کے پروموٹرز بھی۔ لیکن پاکستان نے اپنے بارے میں جو تاثر دنیا کو دیا وہ یہ ہے کہ پاکستان تیزی سے نمبر ون ہونے کی کوشش کررہا ہے۔ اس کے نقصانات کا اندازہ لگانے کے بعد خود ہی کہنا شروع کردیا ہے کہ ہماری لاک ڈائون کی حکمت عملی بہت کامیاب رہی اب بہت تیزی سے بہتری ہورہی ہے۔ لیکن اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ ڈیٹا جھوٹ نہیں بولتا۔ ڈیٹا تو ہم دے چکے۔ آخری چھکا غلام سرور صاحب ہی نے لگایا ہے، کہتے ہیں کہ جو کام 35 برس میں نہیں ہوسکا وہ ہم نے 35 مہینوں میں کردیا۔ اول تو ان کی حکومت کو 35 ماہ نہیں ہوئے ہیں لیکن ممکن ہے حکومت میں لانے والوں کی محنت کے 11 ماہ بھی شامل کرلیے ہوں۔ کام تو ایسا ہی ہوا ہے۔ گزشتہ 35 برس ہی سے حکمران پی آئی اے اور قومی اداروں کو تباہ کرنے کی جدوجہد میں تھے لیکن پی ٹی آئی نے اپنے دو سال ہی میں یہ کام کر دکھایا۔