ـ5 جولائی 77 کی بلا اور غلطیاں

1319

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری نے کہا سے موجودہ کٹھ پتلی حکومت 5 جولائی 1977ء کے جرم کی انتہا ہے۔ 77 کی بلا پیچھا نہیں چھوڑ رہی 5 جولائی کو جمہورت کو لپیٹا گیا شہری حقوق غصب کیے گئے ہر سو آمریت کے رنگ تھے۔ پاکستان پیپلز پارٹی 1988ء سے باقاعدگی کے ساتھ 5 جولائی کو یوم سیاہ مناتی ہے اس کی حکومت ہوتی ہے تو سرکاری سطح پر یہ دن منایا جاتا ہے اور حکومت نہ ہو تو جلسے جلوس ہوتے ہیں لیکن یہ محض پیپلز پارٹی کا مسئلہ نہیں تھا اسے پیپلز پارٹی نے اپنا مسئلہ بنا لیا اور باقی قابل ذکر یا بڑی پارٹیوں نے اسے اسی کا مسئلہ سمجھ کر قبول کر لیا۔ حالانکہ یہ پورے ملک کا اور اس کے مستقبل کا مسئلہ تھا۔ 1977ء میں ایک منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر جرنیل نے اقتدار سنھبالا تھا۔ پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو اس وقت وزیراعظم تھے۔ گزشتہ تقریبا 40 برس سے یہی تاثر ہے کہ سارا غلط کام فوج نے کیا تھا۔ یہ درست ہے کہ ملکی حالات جتنے بھی خراب ہو جائیں فوج کو اقتدار اور سیاست میں نہیں کودنا چاہیے اس اصول کی بنیاد پر تو 1971ء میں فوج کی جگہ عوام کو سنبھال لینی چاہیے تھی تو جب فوج نے ہتیھار ڈالے تھے یا جب جب پاکستانی فوج نے پسپائی اختیار کی یا ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا اس وقت پاکستان کی سیاسی پارٹیوں سول حکومت یا عوام کو فوج کی کمان سنبھال لینی چاہیے تھی لیکن ایسا کوئی اصول وضع نہیں ہو سکا کو 1977ء میں سیاست میں مداخلت نہیں کرنا چاہیے تھی۔ لیکن اس کے اسباب کو تقویت کس نے دی، سول حکمران فوج کے بل پر فوج کی مدد سے مخالفین کو دبانے کا کام کرتے ہیں۔ اپنی ضد کے سبب ہر حال میں اپنی کامیابی چاہتے ہیں اور اس کے لیے تمام تر غلط راستے اختیار کیے جاتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹونے 1977ء کے انتخابات میں دھاندلی کی انتہا کر دی۔ امیدواروںکو اغوا کروایا لوگوں کو قتل کروایا نتائج تبدیلی کیے اور من پسند نتائج اخذ کیے۔ یہ اور بات ہے کہ ان سارے کاموں میں ان کی مدد اس لیے کی جارہی تھی کہ 5 جولائی کا اقدام کرنے کا منصوبہ تھا۔ اس منصوبے میں فوج کی بدنیتی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب بھٹو اور پاکستان قومی اتحاد میں معاہدہ طے پا چکا تھا اور اس کا اعلان ہونا باقی تھا تو ملک میں مارشل لا لگا دیا گیا۔ بھٹو صاحب کے وارثوں نے یہ تکرار تو بہت کی ہے کہ 5 جولائی کو جمہوریت کی بساط لپیٹی گئی تھی لیکن اس جمہوریت کا حال کیا ہو گیا تھا۔ اختیارات کا چوک گھنٹہ گھر بھٹو صاحب کی ذات بن گئی تھی۔ مارشل لا میں چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کی ذات ہوتی ہے پیپلز پارٹی کی جمہوریت میں بھٹو صاحب کی ذات مرکزتھی۔ غلط دونوں ہیں پھر دو مزید خرابیاں ہوئیں پہلی پیپلز پارٹی نے فوج کے ساتھ ملی بھگت کرکے 1988 میں اقتدار سنبھالا اور مسلم لیگ نے دیکھا کہ فوج کے ساتھ مل کر حکومت بنائی جا سکتی ہے تو انہوں نے حکومت تڑوا دی خود حکومت بنا لی۔ اور یہ سلسلہ چل نکلا۔ تو ساری خرابیاں فوج کی نہیں بلکہ اگر پہلی مرتبہ سب مل کر فوج کو کہتے کہ واپس بیرکوں میں جائو۔ تو ایک مرتبہ اچھا خاصا نقصان ہوتا لیکن قوم آج بہت آگے جاچکی ہوتی۔ بلاول زرداری نے کہا ہے لیکن 1977 کی بلا پیچھا نہیں چھوڑ رہی ہے۔ لیکن اقتدار اور بدحالی میں اقتدار کی ہوس کی بلا بھی قوم کا پیچھا نہیں چھوڑ رہی ہے۔ بلاول کی یہ بات درست ہے کہ 1977 کے جرم کی انتہا موجودہ کٹھ پتلی حکومت ہے۔ 1988سے اب تک جس قسم کی حکومتیں آئیں اس میں تو کچھ نہ کچھ جمہوریت تھی لیکن موجودہ حکومت واقعی شاہکار ہے۔ ایک ایک عمل سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ حکومت کوئی اور چلا رہا ہے فیصلے کہیں اور ہو رہے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نیازی پہلے ماسک نہیں پہن رہے تھے لیکن وبا کا زور ٹوٹنے کے بعد سے انہوں نے ماسک پہننا شروع کر دیا ہے۔ شاید انہیں احساس ہو گیا ہے کہ لوگ ان کی حکومت کے بارے میں سب کچھ جان گئے ہیں اس لیے وہ اب منہ چھپانے میں لگے ہیں۔ اس سے قطع نظر سوال یہ ہے کہ کیا 1977 والے کام اب بھی نہیں ہو رہے۔ طاقت اختیارات اقتدار کا مرکز ایک بنانے کی کوشش نہیں ہو رہی فرنٹ پر عمران خان ضرور ہیں لیکن اب کوئی دو رائے نہیں کہ ان کی پشت پر کون ہے۔ پوری قوم پریشان ہے حالات تباہ کن ہیں۔ معیشت ڈوب چکی روپیہ دفن ہونے کو ہے۔ بیروزگاری غربت مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے اور حکومت ایک طرف لاک ڈائون اور صوبہ سندھ کی حکومت سے لڑ رہی ہے تو دوسری طرف سندھ حکومت اس سے اور اب 18ویں ترمیم، ایسا لگ رہا ہے کہ لوگوں کے مسائل اس 18ویں ترمیم میں پوشیدہ ہیں۔ صدر مملکت عارف علوی جو پیشے کے اعتبار سے ذاکٹر ہیں۔ اپنا کام چھوڑ کر مملکت کے صدر تو بن گئے ہیں وہ بھی یہی فرما رہے ہیں کہ 18ویں ترمیم نظرثانی سے بہتر ہو سکتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ صوبوں کی مشاورت اور ہم آہنگی ہونی چاہیے۔ سندھ کے اختیارات سلب کرنے کی کوئی تجویز کبھی نہیں آئی۔ جناب صدر ایسے کاموں کی کوئی تجویز نہیں آتی بس اقدمات ہوتے ہیں۔ وفاق کو 18ویں ترمیم میں اپنا مستقبل محفوظ نظر آرہا ہے اور صوبہ سندھ کو اس میں سازش نظر آرہی ہے حالانکہ دونوں کی بات غلط ہے جس جس قانون میں جو کچھ لکھا ہے اس پرعمل تو کریں۔ عوم کے مسائل حل کرنا حکمرانوں کا کام ہوتا ہے اور حکمرانوں ہی کی وجہ سے عوام کے مسائل بڑھتے رہتے ہیں۔ بلاول زرداری نے جو کہا ہے وہ درست ہے لیکن اگر انہیں کسی نے نہیں بتایا تو کسی سے پوچھ لیں نانا کی تاریخ اوروالدہ کے سمجھوتے خرابیاں وہاں بھی بہت تھیں۔ مسلم لیگ ن نے بھی وہی راستے اختیار کیے، چنانچہ اگر ان ہی راستوں پر چل کر عمران خان وزیراعظم بن گئے ہیں تو بلاول کو جرات نہیں ہونی چاہیے۔ ویسے یہ بات درست ہے کہ اب اخیر ہو گئی ہے۔