سید منور حسن کے انتقال پر پاکستانی برادری کا اظہار افسوس

355

جماعت اسلامی پاکستان کے سابق امیر سید منور حسن کی رحلت پر سعودی عرب میں جماعت اسلامی سمیت دیگر سیاسی و مذہبی رہنماؤں، سماجی و ادبی تنظیموں اورمختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات نے گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے مرحوم کے لیے بلند درجات اور دعائے مغفرت کے ساتھ غم زندہ خاندان سے ہمدردی کا اظہار کیا ہے۔ اس سلسلے میں مذہبی اسکالر اور صحافی عبدالستار خان نے کہا کہ وقت کے ولی، درویشوں کے درویش سید منور حسن اپنے خالق حقیقی جاملے۔ ان کی رحلت سے جو خلا پیدا ہوا ہے، وہ کبھی پر نہیں ہو سکے گا۔ اللہ تعالی انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ انہوں نے کہا کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ ان کا دل ہمیشہ مسجد جانے میں لگا رہتا تھا۔
مدینہ منورہ سے ڈاکٹر خالد عباس الاسدی نے کہا کہ سید منور حسن عالم اسلام کی معتبر، جید اور مدبر شخصیت تھے۔ انہوں نے فکر اسلامی کو اذہان ِانسانی میں راسخ کرنے کی عظیم جدوجہد کی۔ وہ لادینیت کی یلغار کے سامنے چٹان کی طرح ڈٹے رہے اور ہر جابرانہ اور آمرانہ دور میں پرچم حق بلند رکھا۔ وہ وراثت مودودی کے فکری اور اسلامی جانشین تھے۔ ان کے ارتحال کی خبر سانحے سے کم نہیں ۔ ان کے چلے جانے سے آسمان ِفکر اسلامی ایک مہتابِ عظیم سےمحروم ہوگیا۔ آپ جیسی جاندار قیادت کا خلا دیر تک پورا نہ ہوسکے گا، تاہم اسلام پسند ان کے جلائے ہوئےعلمی وعملی چراغوں سےروشنی حاصل کرکے اپنےدلوں کو منور کرتے رہیں گے۔ اللہ منور حسن کی قبرکو منور کرے اور ان کے جسد خا کی کے مقدر میں جنت الفردوس کا مقام لکھ دے۔ آمین
مصنف و محقق انجینئر الطاف اعوان نے سید منورحسن کے انتقال پر تعزیت کرتے ہوئے ان کی مغفرت کے لیے دعا کی اور مرحوم کی زندگی کی پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ جماعت اسلامی کے سابق امیر سید منور حسن طویل علالت کے بعد حرکت قلب بند ہوجانے سے 79 برس کی عمر میں کراچی میں انتقال کر گئے تھے۔ سید منور جماعت اسلامی پاکستان کے چوتھے امیرتھے ۔وہ قاضی حسین احمد کے بعد 2009ء میں جماعت کے امیر منتخب ہوئے لیکن مسلسل خراب ہوتی صحت کے باعث انہوں نے اگلے انتخابات میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا اور یوں وہ اب تک جماعت کے واحد امیر تھے جو محض ایک مرتبہ امارات کے منصب پر فائض ہوئے۔ سید منور حسن5 اگست 1941ء کو دہلی میں ایک ممتاز سید گھرانے میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام سید اخلاق حسن تھا۔ آپ کے خاندان نے قیام پاکستان کے وقت دہلی سے کراچی ہجرت کی۔ سید منو رحسن نے 1963ء اور 1966ء میں کراچی یونیورسٹی سے عمرانیات اور اسلامیات میں ایم اے کے امتحانات امتیازی حیثیت سے پاس کیے۔ دورِ طالب علمی میں سید صاحب ایک اچھے طالبعلم، جامعہ کراچی میں اُردو اور انگلش کے مقرر اور جامعہ کے میگزین کے ایڈیٹر رہے۔ آپ مسلسل 3 سال تک اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کے ناظم اعلیٰ منتخب ہوتے رہے۔ جمعیت کے ناظم اعلیٰ کی حیثیت سے سید منورحسن نے مارشل لاء کے جبر کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ انہیں جیل میں بھی بھیجا گیا۔ انہوں نے اسلامی نظام تعلیم، تعلیمی مسائل اور خواتین یونیورسٹی کے قیام جیسے اہم موضوعات پر بھر پور جدوجہد کی اور اس سلسلے میں عوامی رائے عامہ کو متوجہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا ۔ 1963ء میں سید منور حسن نے ادارہ معارف اسلامی کراچی کی ذمے داری سنبھالی جہاں تھوڑے ہی عرصے میں ان کی زیر نگرانی علمی ادبی اور دینی موضوعات کی 70 سے زائد کتابیں شائع ہوئیں۔ اسی دوران سید منور حسن 2 انگریزی جرائد کے ایڈیٹر بھی رہے۔ سید منور حسن نے 1967ء میں جماعت اسلامی پاکستان میں شمولیت اختیار کی اور جلد ہی کراچی شہر کے امیر بنا دیے گئے۔ اسی دوران سید منورحسن جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ اور مرکزی مجلس عاملہ کے رکن منتخب ہو گئے۔انہوں نے متحدہ جمہوری محاذ اور پاکستان قومی اتحاد کے پلیٹ فارم سے بھی فعال کردار ادا کیا ۔ تحریک نظام مصطفی کے دوران آپ کو ایک مرتبہ پھر جیل بھیج دیا گیا ۔ 1977ء کے عام انتخابات میں منور حسن قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور ملک بھر میں سب سے زیادہ ووٹ لینے کا ریکارڈ قائم کیا۔ سید منور حسن کو 1992ء میں جماعت اسلامی پاکستان کا مرکزی سیکرٹری جنرل بنا دیا گیا۔ سید منور حسن نے بے شمار قومی اور بین الاقوامی کانفرنسوں اور اجتماعات میں شرکت کی۔ وہ کشمیر پر پاکستانی پالیسی کے سخت ناقد تھے، چاہے یہ بات چیت دو طرفہ تجارت پر ہوں یا بس سروس روکنے کا معاملہ ہو، ان کا موقف تھا کہ بھارت کے ساتھ مذاکرات میں کشمیر کا مسئلہ ایک طرف کر دیا گیا ہے۔منور حسن طالبان کے ساتھ بھی مذاکرات کےحامی تھے۔ عافیہ صدیقی کی سزا، ڈرون حملوں اور نیٹو سپلائی کی بحالی پر بھی منور حسن کھل کر نہایت سخت لب و لہجے میں اظہارِ خیال کرتے رہے۔
سماجی رہنما سید شہاب الدین نے سید منور حسن کے انتقال پر اپنے گہرے رنج و دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ بڑے باہمت اور عظیم انسان اور سچائی و حق گوئی کے علمبردار تھے۔ حق کی خاطر اپنے موقف پر ڈٹ جانے والے تھے۔ اختلافات کے باوجود مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کے دل میں ان کا بہت احترام تھا۔ ان کی رحلت سے پاکستان ایک سچے محب وطن، شفیق و بے لوث رہنما سے محروم ہوگیا۔ سید شہاب الدین نے مزید کہا کہ سید منور حسن سے میرا بڑا قریبی تعلق رہا ہے۔ زمانہ طالب علمی میں مختلف تقریبات و دروس کی محفلوں میں ان کے ساتھ بہت سی ملاقاتیں رہیں، جن کی خوشگوار یادیں آج بھی ذہن میں محفوظ ہیں۔ سید منور حسن کی زندگی پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ کی جدوجہد سے عبارت ہے۔ اللہ تعالی سید منور حسن کی مغفرت فرمائے، انہیں اپنے جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے اور ان کی دینی خدمات کو آخرت کا توشہ بنادے۔ آمین۔
جدہ سے کمیونٹی ممبراسلم زبیر قریشی نے سید منور حسن کے انتقال پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ ان کا سید منور حسن کے ساتھ بڑا گہرا تعلق رہا ہے۔ کچھ سال پہلے انہوں نے مجھے ایک نصیحت کی کہ زبیر بھائی آپ مولانا کی تفہیم الحدیث کا مطالعہ ضرور کیجیے گا۔ چنانچہ میں پاکستان سے واپسی پر 6 جلدوں پر مشتمل سیٹ خرید لایا۔
مجلس محصورین پاکستان کے کنوینیئر انجینئر سید احسان الحق نے سید منور حسن کی رحلت پر ان کی مغفرت کے لیے دعا کرتے ہوئے کہا کہ ہم ایک عظیم انسان سے محروم ہوگئے۔ آسمان ان کی لحد پر شبنم افشانی کرے۔
پاکستان رائٹرز فورم کے صدر انجینئر سید نیاز احمد نے کہا کہ سید منور حسن پاکستان کی سیاست میں ایک بے داغ کردار کے حامل رہے۔ ان کی سیاسی بصیرت اور سیاسی کردار نے پاکستانی معاشرے پر گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔ آپ سے جو شخص بھی ملا، وہ متاثر ہوئے بنا رہ نہیں سکا۔ خصوصاً پاکستان میں امریکی دہشت گردی کے دوران مظلوم لوگوں کو ان سے بڑا حوصلہ ملا۔ پاکستان کے سیاست دانوں میں ان جیسے جری اور بے باک لیڈر بہت کم گزرے ہیں۔
پاک یونائیٹڈ میڈیا فورم سعودی عرب کے چیئرمین عابد شمعون چاند اور دیگر عہدیداران نے سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان سید منور حسن کی وفات پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مرحوم انتہائی شفیق ملنسار ہمدرد اور اخلاق کے پیکر تھے۔ ان کی بے لوث خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ دعا ہے کہ اللہ سید منور حسن کو غریق رحمت فرمائے اور پسماندگان سمیت جماعت اسلامی کے عہدیدارن و کارکنوں کو صبر جمیل عطا کرے۔
پاکستان جرنلسٹس فورم کے معروف حسین نے کہا کہ سید منور حسن نہایت شریف النفس، مفکر اور اعلیٰ پائے کے عالم دین تھے۔ سیاست پر ان کی گہری نظر اور دسترس تھی۔ انہوں نے بڑے احسن طریقے سے جماعت اسلامی کے امیر کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کیا۔ وہ پاکستان کے لیے ایک بڑا اثاثہ تھے۔ ان کی رحلت سے پیدا ہونے والی کمی ہمیشہ محسوس ہوتی رہے گی۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور ہمیں ان کے افکار کی قدر کرنے اور ان جیسے علما کی اہمیت اور افادیت کو جانتے ہوئے ان کی زندگی میں قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔