دادا کی لاش پر بیٹھے ننھے عیاد کی تصویر میں چھپی المناک داستان

316

سید امجد حسین
دادااورپوتا ابھی چند سو میٹر ہی چلے ہوں گے کہ انہیں گولیوں کی تڑٹراہٹ سنائی دی۔ عیاد خوف سے اپنے دداکے ساتھ لپٹ گیا۔ اچانک بھارتی سیکورٹی فورسز کی گاڑیاں دیکھ کر بشیر احمد نے اپنی گاڑی کی رفتار سست کی۔ انہیں سی آر ایف کے اہلکار نے روکا، گاڑی سے اتارا اور اندھادھند فائرنگ شروع کردی۔ ننھے عیاد کےلیے یہ سب کچھ اچانک تھا۔ سہمے ہوئے معصوم بچے کے سامنے اس کے داداکی لاش پڑی تھی جبکہ چاروں جانب سے فائرنگ کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ ایک بھارتی فوجی آگے بڑھا، اس نے عیاد کو دادا کی لاش کے اوپر بٹھا کر تصویر بنائی۔ یہ تصویر 65 سالہ بشیر احمد کی تضحیک کےلیے بنائی گئی تھی۔ لیکن شاید انہیں علم نہیں تھا کہ یہ خود اُن کے گلے پڑنے والی ہے۔
اس واقعے نے دردِ دل رکھنے والے ہر انسان کا کلیجہ چیر کر رکھ دیا۔ ہر انسان کا دھاڑیں مار مار کر رونے کو جی کرتا ہے۔ انسانیت اس واقعے پر چیخ رہی ہے۔ الفاظ چنگھاڑ چنگھاڑ کر انسانیت کو بیدار کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ تصاویر عالمی ضمیر کو بیدار کرنے کےلیے بار بار شیئر ہورہی ہیں، لیکن ہر طرف خاموشی اور گہرا سکوت طاری ہے۔ یوں محسوس ہورہا ہے کہ گویا ہونٹ سلے ہوئے ہیں، زبانوں پر تالے لگے ہوئے ہیں، ہاتھ اور پاؤں بیڑیوں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ ایسا لگ رہا ہے کہ اس گہرے سکوت اور طویل خاموشی میں ایک شور چھپا ہوا ہے۔ ایک طوفان آنے والا ہے۔
ٹی وی اسکرین پر ہر جگہ چلنے والی یہ محض ایک تصویر نہیں بلکہ درد و الم کی ایک داستان ہے۔ یہ داستان ہر روز مقبوضہ کشمیر کے گھروں میں دہرائی جاتی ہے۔ یہ معصوم بچہ اپنے دادابشیر احمد کی میت کے اوپر بیٹھا ہوا ہے۔ یہ تین سالہ بچہ جس کے داداکو بھارتی فوج نے گاڑی سے اتارا اور گولیوں سے بھون ڈالا۔ آج جس معصوم بچے کے سامنے اس کے داداکا سینہ گولیوں سے چھلنی کیا گیا، دادا کے سینے پر بیٹھے اس بچے کی تصویر نے ہر انسان کا سینہ چھلنی کردیا۔ یہ منظر جب جب کشمیریوں کی نگاہوں کے سامنے آئے گا، ان کا جذبہ مزاحمت بڑھتا رہے گا۔ اس معصوم پھول کے قدم محکوم کشمیریوں کی مزاحمت کے جذبے کا اعلان ہیں۔ قابض فوجیوں نے 43 عام شہریوں کو گاڑیوں سے اتارا، انہیں گولیوں سے بھون کر رکھ دیا۔ قابض فوج کی جانب سے نہ صرف مقبوضہ وادی کے اندر معصوم بچوں کو ظلم و جارحیت کا نشانہ بنایا جاتا ہے، جبکہ ایل او سی کی دوسری جانب بھی معصوم پھول مارٹر شیلز کا نشانہ بن رہے ہیں۔
سوپور میں ہونے والے اس واقعے کے بعد کئی سوالات سر اٹھا رہے ہیں۔ پہلا سوال کہ بشیر احمد کو کس نے قتل کیا؟ مقامی صحافیوں کے مطابق جس جگہ یہ واقعہ پیش آیا، وہ نسبتاً ایک ویران علاقہ ہے، جہاں کوئی بھی عینی شاہد نہیں تھا۔ بشیر احمد کے اہل خانہ نے الزام سی آر پی ایف پر لگایا اور پولیس نے اس الزام کی تردید کرتے ہوئے روایتی ہتھکنڈا اپناتے ہوئے حریت پسندوں کو مورد الزام ٹھہرایا۔ بعد ازاں رات گئے عیاد جہانگیر کی وڈیو جاری ہوئی، جس میں 3 سالہ معصوم بچہ اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ ابو (دادا) کو پولیس اہلکاروں نے گولیوں سے بھون ڈالا۔ دوسرا اہم سوال بشیراحمد کی میت پر عیاد کی فوٹو، لاش کی بے حرمتی کی تصاویر اور مختلف زاویوں سے معصوم بچے کی تصاویر کس نے بنائیں؟ اس کا جواب بھی پہلے ہی سے ملتا جلتا ہے۔ ویران علاقے میں کوئی فوٹو جرنلسٹ موجود نہیں تھا۔ نہ ہی یہ کوئی معمول کی کارروائی تھی کہ صحافی وہاں موجود ہوتے۔ پولیس اہلکاروں نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ فوٹو پولیس کی جانب سے بنائے گئے، لیکن فوٹو بنانے والے اہلکار کا نام تاحال کسی کو معلوم نہیں۔ اب اگر تصاویر پولیس اہلکاروں نے بنائی ہیں تو انہیں جاری کرنے کے مقاصد کیا تھے؟ مقامی صحافیوں کے مطابق تصاویر جاری کرنے کا مقصد لاش کی تضحیک کرنا تھا۔ آخری اور سب سے اہم سوال کہ یہ تصاویر وائرل کیسے ہوئیں؟ مقبوضہ کشمیر میں عموماً ہر آپریشن سے پہلے اور بعد میں انٹرنیٹ سروس بند کردی جاتی ہے، جس کے باعث وہاں ہونے والے واقعات اور مظالم کے بارے میں عالمی برادری کو علم نہیں ہوتا، لیکن اس آپریشن کے دوران فورسز انٹرنیٹ پر بندش نہیں عائد کرسکیں، جس کے باعث سوشل میڈیا پر تصاویر تیزی سے وائرل ہوئیں۔
واقعے کے بعد مقامی صحافیوں سے رابطہ ہوا، ان کے ٹوئٹس دیکھے۔ ہر فرد اس دلخراش داستان پر کچھ کہنے سے قاصر تھا۔ کئی صحافی بشیر احمد کے اہلخانہ کا انٹرویو کرنے گئے، لیکن وہاں ان کی بیٹی، بیوہ اور دیگر رشتے داروں کی چیخوں نے انہیں ہلا کر رکھ دیا۔ یہاں تک کہ جس جگہ بشیر احمد کو شہید کیا گیا، وہاں بھی عیاد کی تصاویر اتارتے ہوئے ان کی ہمت جواب دے گئی۔ ایک فوٹو جرنلسٹ کے مطابق جنوبی کشمیر میں گزشتہ گیارہ ماہ سے یہ معمول ہے۔ انہیں ہر دن ایسے واقعات کی تصویر کشی کرنا پڑتی ہے، لیکن اس واقعے نے انہیں توڑ کر رکھ دیا ہے۔ ان کا جگر چھلنی ہوچکا ہے، انہیں اپنی پروفیشنل ذمے داری پوری کرنے کےلیے بھی کئی منٹ تک انتظار کرنا پڑا کیونکہ ان کی ہمت جواب دے گئی تھی۔
عیاد جہانگیر کی تصاویر وائرل ہوئیں۔ پوری دنیا میں اس کی چیخیں سنی گئیں۔ ایمنسٹی انڈیا نے بھی واقعے کی مذمت کی ہے تاہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا صرف مذمت ہی کافی ہے؟ کیا دنیا صرف تصاویر شیئر کرنے تک ہی محدود رہے گی؟ کیا کشمیر کی گلیوں میں لہو یونہی بہتا رہے گا؟ کیا وادی کے چناروں کی سرخی ہمیشہ ہی اس خون ناحق کی مرہون منت رہے گی؟ کیا اقوام عالم کی بیداری کےلیے ہم اپنا فرض ادا کررہے ہیں؟ کیا کراس فائرنگ کا بہانہ تراش کر کشمیر میں خون کی ہولی جاری رہے گی؟ نہیں۔ ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا۔ مظلوم کی آہیں اور فریاد عرش کو ہلا کر رکھ دیتی ہے۔ بس زمین پر بسنے والوں کو انسانیت کا فرض ادا کرنے کی ضرورت ہے۔