یمنی خانہ جنگی ختم کیوں نہیں ہورہی ؟

206

بی بی سی
دنیائے عرب کا غریب ترین ملک یمن خانہ جنگی سے تباہ حال ہے۔ اس تنازع کی جڑ عرب بہار کی بغاوت کے بعد یمن میں استحکام لانے والی سیاسی منتقلی کی ناکامی میں پنہاں ہے۔ عرب خطے میں اٹھنے والی اس تحریک نے ایک عرصے سے یمن میں حکومت کرنے والے علی عبد اللہ صالح کو 2011ء میں اپنے نائب منصور ہادی کو اقتدار سونپنے پر مجبور کیا۔
منصور ہادی کو بحیثیت صدر کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑا جن میں ملیشیاؤں کے حملے، جنوب میں علاحدگی پسندوں کی تحریک، سیکورٹی اہلکاروں کی عبد اللہ صالح کے ساتھ مسلسل وفاداری کے علاوہ بدعنوانی، بیروزگاری اور غذائی اشیا کا عدم تحفظ شامل تھا۔
یمن میں ایران نواز حوثی ملیشیا جو گزشتہ ایک دہائی کے دوران منصور ہادی کی حکومت کے خلاف کئی بار بغاوت کر چکی تھی، اس نے نئے صدر کی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے شمالی صوبہ صعدہ اور اس کے آس پاس کے علاقوں پر قبضہ کر لیا اور اس دوران منتقلی سے مایوس ہو کر بہت سے یمنیوں نے حوثیوں کی حمایت کی اور 2014ء کے آخر اور 2015ء کے اوائل میں باغیوں نے رفتہ رفتہ دارالحکومت صنعا پر بھی قبضہ کر لیا۔
حوثیوں اور علی عبداللہ صالح کی وفادار سیکورٹی فورسز نے پورے ملک کا کنٹرول حاصل کرنے کے بعد منصور ہادی کو مارچ 2015ء میں بیرون ملک فرار ہونے پر مجبور کر دیا۔ عبداللہ صالح کی وفادار فوج کے بارے میں خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ اس نے اقتدار کو دوبارہ حاصل کرنے کے لیے اپنے پرانے دشمن حوثیوں کی حمایت کی۔ یمن میں ایک ایسے گروپ کے عروج سے جو ان کے خیال میں علاقائی شیعہ طاقت ایران کی حمایت سے پروان چڑھ رہا تھا، سعودی عرب اور 8 دیگر عرب ریاستوں نے یمن میں ایرانی اثر و رسوخ کو ختم کرنے، حوثیوں کو شکست دینے اور منصور ہادی کی حکومت کو بحال کرنے کے لیے فضائی مہم شروع کر دی۔ اس اتحاد کو امریکا، برطانیہ اور فرانس کی جانب سے تکنیکی اور انٹیلی جنس سطح پر تعاون ملا۔
جنگ کے آغاز پر سعودی حکام نے پیش گوئی کی تھی کہ یہ صرف چند ہفتوں تک جاری رہے گی لیکن 4 سال بعد بھی یہ جنگ جاری ہے۔ اگست 2015ء میں اتحادیوں کے زمینی دستے یمن کے جنوبی بندرگاہ والے شہر عدن میں اترے اور انہوں نے اگلے چند مہینوں کے دوران حوثیوں اور ان کے اتحادیوں کو جنوب کے بیشتر حصوں سے نکالنے میں مدد فراہم کی۔ منصور ہادی کی حکومت عارضی طور پر عدن میں قائم ہوئی لیکن اسے عوام کو بنیادی سہولیات اور تحفظ فراہم کرنے میں دشواریوں کا سامنا رہا جبکہ صدر بذات خود زیادہ تر سعودی عرب میں مقیم رہے۔
اس دوران حوثیوں کو صنعا اور شمال مغربی یمن سے نکالا نہیں جا سکا۔ دریں اثنا وہ یمن کے تیسرے شہر تعز کا محاصرہ برقرار رکھنے اور سعودی عرب پر مسلسل میزائل اور ڈرون حملے کرنے میں کامیاب رہے۔ ستمبر 2019ء میں سعودی عرب کے علاقے بقیق اور خریص پر فضائی حملے ہوئے جس سے مملکت کی نصف تیل کی پیداوار میں خلل پڑا۔ یہ دونوں علاقے دنیا میں 5 فیصد تیل فراہم کرنے والے علاقے ہیں۔ حوثیوں نے اس حملے کی ذمے داری قبول کی لیکن سعودی عرب اور امریکا نے ایران پر ان حملوں کا الزام عائد کیا۔
اسی دوران کچھ دیگر عسکریت پسند تنظیموں اور ان کے حمایتیوں نے یمنی انتشار سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ملک کے جنوبی علاقے پر قبضہ کر لیا اور بطور خاص عدن پر مہلک حملے کرتے رہے۔ نومبر 2017ء میں سعودی دارالحکومت ریاض کی طرف میزائل حملے نے عرب عسکری اتحاد کو یمن کی ناکا بندی سخت کرنے پر مجبور کیا۔ اس نے کہا کہ وہ ایران کی جانب سے باغیوں کو ہتھیاروں کی اسمگلنگ روکنا چاہتا ہے جب کہ تہران اس الزام کی تردید کرتا ہے۔
صنعا کی سب سے بڑی مسجد کے کنٹرول کے لیے ہونے والے مہلک تصادم کے بعد نومبر 2017ء میں حوثیوں اور علی عبداللہ صالح کے درمیان اتحاد بھی ٹوٹ گیا۔ حوثی جنگجوؤں نے دارالحکومت کا مکمل کنٹرول حاصل کرنے کے لیے ایک آپریشن کا آغاز کیا اور علی عبداللہ صالح مارے گئے۔ جون 2018ء میں اتحادی افواج نے بحر احمر کے شہر حدیدہ سے حوثیوں کا قبضہ ختم کرنے کے لیے ایک بڑا حملہ شروع کرتے ہوئے میدان جنگ میں آنے والے تعطل کو توڑنے کی کوشش کی۔ خیال رہے کہ حدیدہ کی بندرگاہ یمن کی تقریباً دو تہائی آبادی کے لیے بنیادی لائف لائن ہے۔
اقوام متحدہ نے متنبہ کیا ہے کہ بندرگاہ کی تباہی ایک ایسا خاردار نقطہ ہے، جس کے بعد قحط کی وجہ سے بڑے پیمانے پر ہونے والے جانی نقصان سے بچنا ناممکن ہو گا۔ 6 ماہ کی لڑائی کے بعد فریقین نے سوئیڈن میں ہونے والے مذاکرات میں جنگ بندی پر اتفاق کیا۔ اسٹاک ہوم معاہدے میں ان سے یہ کہا گیا کہ وہ حدیدہ سے اپنی افواج ہٹائیں، قیدیوں کے تبادلے کا طریقہ کار قائم کریں اور تعز کی صورتحال کو حل کریں۔ اس معاہدے کے بعد سے اب تک سیکڑوں قیدیوں کو رہا کیا گیا ہے لیکن ابھی تک حدیدہ سے فورسز کو ہٹانے کا کام شروع نہیں ہوا، جس سے یہ خدشہ پیدا ہونے لگا ہے کہ اسٹاک ہوم معاہدہ ناکام ہو جائے گا اور یہ کہ حدیدہ کے لیے جنگ دوبارہ شروع ہو جائے گی۔
جولائی 2019ء میں یمن کی جنگ میں سعودی عرب کے اہم حلیف متحدہ عرب امارات نے بین الاقوامی سطح پر اپنے طرز عمل پر تنقید کے بعد یمن سے اپنی فوج ہٹانے کا اعلان کیا۔ اگست میں سعودی عرب نواز حکومتی دستوں اور متحدہ عرب امارات کی حمایت والی جنوبی عبوری کونسل (ایس ٹی سی) جو کہ بظاہر جنوبی علاحدگی پسند تحریک ہے، کے مابین جنوب میں لڑائی چھڑ گئی۔ ایس ٹی سی کی وفادار فورسز نے، جس نے منصور ہادی پر بدانتظامی اور اسلام پسندوں سے تعلقات کا الزام عائد کیا تھا، عدن پر قبضہ کر لیا اور اس نے کابینہ کی واپسی سے منع کردیا تاوقتیکہ سعودی عرب نے نومبر میں اقتدار میں شراکت کا ایک معاہدہ طے نہ کروایا۔
اقوام متحدہ کو امید تھی کہ یہ معاہدہ خانہ جنگی کو ختم کرنے کے لیے سیاسی تصفیے کا راستہ صاف کردے گا لیکن جنوری 2020ء میں حوثیوں اور اتحادی فوجوں کے مابین دشمنی میں اچانک اضافہ ہو گیا اور انہوں نے مختلف محاذوں پر لڑائی چھیڑ دی اور میزائل اور فضائی حملے کیے۔ اپریل 2020ء میں ایس ٹی سی نے عدن میں خودمختاری کا اعلان کر دیا اور اس طرح اس نے بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ حکومت کے ساتھ طے پانے والے امن معاہدے کو توڑتے ہوئے کہا کہ وہ بندرگاہ والے شہر اور جنوبی صوبوں پر حکومت کرے گی۔ سعودی عرب نے کورونا وائرس کے وبائی امراض کی وجہ سے اسی ماہ یکطرفہ طور پر جنگ بندی کا اعلان کیا لیکن حوثیوں نے اس کو مسترد کر دیا اور صنعا اور حدیدہ میں ہوائی اور سمندری ناکا بندی اٹھانے کا مطالبہ کیا۔
مختصرا کہا جا سکتا ہے کہ یمن دنیا کے بدترین انسانیت سوز بحران کا سامنا کر رہا ہے۔ اقوام متحدہ نے مارچ 2020ء تک کم از کم 7700 عام شہریوں کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے اور ان میں سے زیادہ تر اموات سعودی قیادت میں اتحادی افواج کے فضائی حملوں کے نتیجے میں ہوئی ہیں۔ یمن کے حالات پر نظر رکھنے والے مانیٹرنگ گروپس کا خیال ہے کہ ہلاکتوں کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔ امریکا میں قائم آرمڈ کنفلکٹ لوکیشن اینڈ ایونٹ ڈیٹا پروجیکٹ (اے سی ایل ای ڈی) نے اکتوبر 2019ء میں کہا تھا کہ اس نے براہ راست حملوں میں مارے جانے والے 12 ہزار شہریوں سمیت ایک لاکھ سے زیادہ ہلاکتیں ریکارڈ کیں۔
2019ء میں 23 ہزار سے زیادہ ہلاکتوں کی اطلاعات تھیں جس کے سبب یہ یمن جنگ کا اب تک کا دوسرا سب سے مہلک سال بن گیا۔ غذاؤں کی قلت، بیماری اور خراب صحت کی وجہ سے ہزاروں دوسرے شہریوں کی ہلاکت ہوئی جسے روکا جا سکتا تھا۔ سیو دی چلڈرن نامی تنظیم نے اندازہ لگایا ہے کہ غذائيت کی شدید کمی کے سبب اپریل 2015ء اور اکتوبر 2018ء کے درمیان 85 ہزار بچے مر چکے ہیں۔
دو کروڑ 40 لاکھ آبادی یعنی ملک کی تقریبا 80 فیصد آبادی کو انسانی امداد اور تحفظ کی ضرورت ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق تقریباً 2 کروڑ افراد کو فوڈ سیکورٹی کی ضرورت ہے۔ ان میں سے تقریباً ایک کروڑ افراد قحط سے صرف ایک قدم دور سمجھے جاتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق 20 لاکھ بچے غذائیت کی شدید کمی کا شکار ہیں جن میں سے 5 سال سے کم عمر کے لگ بھگ تین لاکھ 60 ہزار بچے بھی شامل ہیں جو اپنی زندگی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔
ملک کی 3500 طبی سہولیات میں سے صرف آدھی مکمل طور پر کام کر رہی ہیں جبکہ تقریباً 2 کروڑ افراد کو مناسب صحت کی سہولت تک میسر نہیں اور تقریباً پونے 2 کروڑ لوگوں کے پاس پینے کے لیے صاف پانی یا مناسب حفظان صحت تک رسائی نہیں ہے۔ اس کے نتیجے میں طبی عملہ ملک میں اب تک کے سب سے بڑے ہیضے کی روک تھام کے لیے جدوجہد کرتا نظر آیا جس کی زد میں تقریباً 22 لاکھ افراد آئے اور اس کی وجہ سے اکتوبر 2016ء سے اب تک 3895 اموات ہوئی ہیں۔
اقوام متحدہ نے متنبہ کیا ہے کہ کورونا وائرس سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد پچھلے 5 برس میں جنگ، بیماری اور بھوک کی مشترکہ تعداد سے تجاوز کر سکتی ہے۔ اقوام متحدہ نے مالی اعانت کے لیے بھی شدید اپیل کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ صحت کی اہم خدمات سمیت ملک میں اس کے کاموں کو انجام دینے میں فنڈ کی سخت کمی ہے۔ جنگ نے تقریباً ساڑے 36 لاکھ لوگوں کو بے گھر کر دیا ہے۔
یمن میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ علاقائی کشیدگی کو بہت بڑھا سکتا ہے۔ یہ مغرب کے لیے بھی پریشانی کا سبب ہے کیونکہ اگر یہ علاقہ زیادہ غیر مستحکم ہوتا ہے تو وہاں سے دہشت گردوں سے وابستہ گروپس اُٹھ سکتے ہیں۔ تنازع کو شیعہ حکومت والے ایران اور سنی حکومت والے سعودی عرب کے مابین علاقائی طاقت کی جدوجہد کے ایک حصے کے طور پر بھی دیکھا جاتا ہے۔ صدر ہادی کے حمایتی خلیجی ممالک کی ریاستوں نے الزام لگایا ہے کہ ایران نے حوثیوں کو مالی اور عسکری طور پر استحکام فراہم کیا لیکن ایران نے اس کی تردید کی ہے۔ یمن اسٹریٹجک لحاظ سے بھی اہم ہے کیونکہ یہ بحر احمر کو خلیج عدن کے ساتھ جوڑنے والے ایک آبنائے پر بیٹھا ہے جو دنیا کے بیشتر تیل کی گزرگاہ ہے۔