اقتدار کی قیمت

410

کہتے ہیں چند عشرے قوموں کی زندگی میں وہی حیثیت رکھتے ہیں جو پالنے میں پڑے پوت کی ہوتی ہے۔ مگر حقیقت یہ بھی ہے کہ جس طرح پوت کے پائوں پالنے میں دکھائی دیتے ہیں اسی طرح نوزائیدہ قوم کے پائوں بھی پالنے میں دکھائی دیتے ہیں۔ انڈیا ایک بہت بڑا ملک تھا اس میں سیکڑوں ریاستیں تھیں۔ اور ہر ریاست برتری کے زعم میں مبتلا تھی۔ اس ملک میں سمندر پار سے تجارتی مال لے کر سوداگر آتے تھے۔ انہوں نے ان کی آپس کی رنجش کو ہوا دی اور ان کے حلیف اور دوست بن گئے۔ رفتہ رفتہ ریاستیں آپس میں دست وگریباں ہوگئیں اور ملک پر سوداگروں نے قبضہ جما لیا مگر جب سوداگروں نے انہیں غلام سمجھنے کی حماقت کی تو آزادی آزادی کی صدائیں گونجنے لگیں۔ سوداگروں نے بہت ظلم ڈھائے تاکہ ان کا تسلط برقرار رہے۔
سوداگر کا تعلق کسی بھی قوم، کسی بھی مذہب یا علاقے سے ہو اس کی سوچ ذاتی منافع سے آگے نہیں بڑھتی انہوں نے رخت سفر باندھا شروع کردیا کچھ دانش وروں نے یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ یہ قوم بہت معصوم اور سادہ دل ہے جمہوریت اسے راس نہیں آئے گی۔ اس سے بہتر یہی ہوگا کہ زمینداروں اور صاحب ثروت افراد کے ظلم و ستم سے بچانے کے لیے سیاسی تربیت دی جائے مگر حکمران طبقہ نے کہا ہمارے بعد اس ملک اور قوم کا مستقل کیا ہوگا ہمیں اس سے کچھ سروکار نہیں ہم یہاں کے لوگوں کو زبان دے چکے ہیں۔ کیونکہ دوسری جنگ عظیم کے دوران یہاں کے فوجیوں نے اسی شرط پر ہمارا ساتھ دیا تھا کہ جنگ کے اختتام پر ہم چلے جائیں گے۔ سوداگر کے ملک سے جلد از جلد چلے جانے پر زمینداروں کا طبقہ اس لیے بھی بضد تھا کہ انہوں نے اپنی زمینیں دیگر اقوام کے پاس رہن رکھی ہوئی تھیں۔ آزادی کے بعد وہ طبقہ یہ یہاں سے چلا جاتا دو قومی نظریے کے تحت جو لوگ جس علاقے میں اکثریت میں تھے وہ وہیں پر رہتے اور اقلیت اپنے اکثریت رکھنے والے علاقوں میں جابستے بعض دانش وروں اور سیاسی رہنمائوں نے یہ سمجھانے کی بہت کوشش کی کہ تقسیم کا فارومولا نقصان دہ ہے۔ یہ عوام سے وہ مراعات بھی چھین لے گا جو انگریزوں نے دی ہوئی ہیں مگر ان حقائق کو یکسر نظر انداز کرکے آزادی پر زور دیا گیا۔ زمینداروں کا وہ طبقہ جو اقلیتی طبقے کا مقروض تھا اور ضمانت کے طور اپنی زمین رکھی ہوئی تھیں انگریزوں نے ان سے رابطہ کیا اور کہا کہ ہم تمہارا ملک چھوڑ کر جارہے ہیں۔ ہم نے وعدہ کیا تھا کہ جنگ عظیم میں ہمارا ساتھ دو ہم تمہیں آزادی دیں گے کیونکہ فوج میں شامل نوجوانوں نے واضح طور پر کہا تھا کہ ہم نے ہندوستان کی حفاظت کا حلف اٹھایا ہے کسی دوسرے ملک کی جنگ نہیں لڑیں گے اصول کے مطابق ہم جارہے ہیں اور اقتدار کے جزام میں مبتلا طبقہ آزادی دو آزادی دو کی گردان کرتے ہوئے جنگ آزادی کا حصہ بن گیا اور جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو یہ طبقہ حکمرانوں میں شامل ہوگیا پاکستان ان کے لیے دولت اور شہرت کمانے کا ذریعہ بن گیا۔ عوام ان کے خانہ زاد بن کر رہ گئے انگریز دانش وروں کا یہ کہنا درست ہی ثابت ہوا ہے کہ جمہوریت اس قوم کو راس نہیں آئے گی۔ پاکستان معرض وجود میں آیا تو جمہوریت کے نام پر بدترین آمریت قائم کردی گئی مشرق پاکستان کے لوگوں کا کہنا تھا کہ ہم نے یہ ملک جمہوریت کے لیے حاصل کیا تھا ورنہ انگریز اچھوت نہ تھے۔ جمہوریت کا تقاضا ہے کہ بنگالی زبان کو قومی زبان کا درجہ دیا جائے اور ڈھاکا کو دارالحکومت بنایا جائے۔ مگر لوٹ مار جن کے خمیر میں شامل تھی اس نے جمہوریت قائم ہی نہ ہونے دی۔ جمہوریت کے نام پر قتل و غارت سے تنگ آ کر فوج نے ایوان اقتدار میں بسیرا کر لیا کرپٹ اور بد عنوان سیاست دانوں کو سیاست سے بے دخل کردیا گیا مگر وہ اپنی اولاد اور عزیزوں کو آگے لے آئے۔
فوجی حکمرانوں کے طرز حکمرانی اور حب وطنی کے بدولت ملک ترقی کی جانب گامزن ہونے لگا۔ یہ صورت حال پاکستان کے دشمنوں کو پسند نہ آئی انہوں نے ایوب خان کے خلاف تحریک چلائی اور اندورونی دشمنوں کو یقین دہانی کرائی کہ ایوب خان کا اقتدار ختم ہوگیا تو انہیں اہل پاکستان کی نظروں میں معزز اور محترم بنا دیا جائے گا۔ سو تحت ایوب خان کو اتنا رسوا کیا گیا کہ وہ اقتدار سے بد ظن ہوگئے اور گھر چلے گئے ایوب خان نے پانی کے ذخائر کے لیے بھارت سے معاہدہ کیا اور دو ڈیم تعمیر کیے اور تیسرے ڈیم کی تعمیر کی بنیاد رکھ دی مگر ان کے اقتدار کا اختتام ہوگیا۔ آنے والی حکومتوں نے کالا باغ ڈیم نہیں بنایا شاید کہنے والے درست ہی کہتے ہیں کہ ایوب خان کا اقتدار کے خاتمہ کالا باغ ڈیم نہ بنانے سے مشروط سے تھا۔