لاک ڈائون میں دلچسپ مشاغل

389

عائشہ قریشی
آج صبح خلاف معمول دیر سے آنکھ کھلی تو بڑی حیرانی ہوئی ورنہ چھٹی والے دن تو بچوں نے وہ اودھم مچایا ہوتا ہے کہ شور سے سونا محال ہو جاتا تھا ویسے بھی مشترکہ خاندانى نظام میں اس طرح کى رونق رہتى ہے پھر اچانک یاد آیا کہ “محترم کورونا وائرس”کی وجہ سے بچے گھروں میں محصور ہو گئے ہیں مگر گھر میں بھی سناٹا تھا۔جب گھر میں موجود بچوں کى جانب نظر دوڑائى تو معلوم ہوا کہ بچےموبائل فون ہاتھ میں پکڑے ایک کونے میں پڑے ہیں اور سارا دن ہى مصروف عمل ہوتے۔تشویش بھی ہوئی کہ ہمہ وقت موبائل استعمال کرنے سے مبادہ آنکھوں کو نقصان نہ پہنچ جائے۔جب انکی ماؤں سے اس بارے میں استفسار کیا تو کہنے لگیں کہ “بی بی پھر تم ہی انکو سنبھال لیا کرو ،جیسے ہی موبائل انکے ہاتھ سے لو تو ایسی جنگ کرتے ہیں کہ الامان الحفیظ!” یہ ٹکا سا جواب سن کر میں وہاں سے کھسک گئی۔
گھر کے کام نمٹاتے ہوئے بھی دماغ میں اسی بارے میں کھچڑی پکتی رہی۔آخر کار بچوں سے ہی اس بارے میں بات کرنے کا سوچا-سب سے پہلے ہم نے صحن میں کھیلنے کے بہانے سے بچوں کو اکھٹا کرنے کا ارادہ باندھا۔يہ سوچ کر خود کو داد دی اور بچوں کی جانب چل دیے،کہ یہ تو بڑا آسان کام ہے۔جب بچوں سے اس بارے میں بات کی تو ہماری معلومات میں نیا اضافہ ہوا کہ اس “چھ انچ کے جہان” میں دنیا کا ہر گیم بہ آسانی کھیل سکتے ہیں اور بچے بھی اس کو چھوڑ کر باہر گرمی میں کھیلنے کو راضی نہیں تھے۔یہاں سے بھی ٹکا سا جواب سن کر ہم اپنا سا منہ لے کر چل دیے۔
پھر رات کو سوتے وقت بڑا اچھوتا سا خیال ذہن میں کوندا اور صبح اس پر بطور آخری کوشش عمل درآمد کرنے کا بھی ارادہ کیا۔
صبح جب موبائلز چارجنگ پر لگے ہوئے تھے تو میں نے بچوں کو اپنے خیال سے آگاہ کیا -آخرکار تھوڑى شدومد کے بعد راضی ہو گئے۔
خیال کچھ اس طرح تھا کہ بچوں کو ہر دن کا ایک چیلینج تھمانا ہے۔اگر وہ اسے پورا کر لیں تو انھیں انعام دیا جائے گا اور انعام کےلیے ہم نے کھانے پینے کی چیزوں پر اکتفا کيا-پہلے دن سب بچوں نے مل کر نماز کا ترجمہ یاد کرنا تھا۔بچے پورے جوش سے انعام حاصل کرنے کے لیے تر جمہ یاد کرنے میں مگن ہو گئے ۔ محض دو گھنٹے میں سب کو ترجمہ یاد تھا۔
اس دوران بچے موبائل کو بالکل ہی بھول چکے تھے۔انکی مائیں بھی دلچسپی سے یہ سب دیکھ رہی تھیں۔بچے بھی انعام پاکر بےحد خوش تھے۔اگلے دن مصوری کا مقابلہ رکھا۔ اسى طرح روزانہ کى بنياد پر اب کبھی کچھ یاد کر نے کا مقابلہ ہوتا ہے تو کبھی کتاب پڑھنے کا۔ آج سارے بچوں نے مل کر پودا لگانے کى سرگرمى ميں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور تو اور بچیوں کو ہلکا پھلکا کھانا بنانا بھی آگیا-
اب ہمارے گھر کے سب چھوٹے بڑے افراد کیک بیک کرنے میں اتنے ماہر ہو چکے ہیں کہ بیکری کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔صبح ہو یا شام نت نئی ترکیبوں سے کیک بیک کرتے رہتے ہیں اور اب تو یہ جیسے بائیں ہاتھ کا کھیل بن گیا ہے۔
يہى نہیں بلکہ بچے لاک ڈاؤن میں بھی گھر بیٹھ کر ہر روز کچھ نیا سیکھ رہیں ہیں- ايسا نہيں کہ ان بچوں نے میرے” رقيب” سے مکمل دورى اختيا کرلى۔موبائل تو وہ اب بھی لیتے ہیں لیکن اس میں اب کیک بیک کرنے کی تراکیب دیکھتے ہیں یا تو کسی اور چیز کی۔
آپ بھى میرے مشورے پر نظر کرم رکھيئےاور میرا اچھوتا خیال اپنے گھر کے بچوں پر آزمائيں تاکہ لاک ڈاؤن میں اپنے بچوں کو روز نئی چیزیں سيکھتے اور کرتے ديکھ سکيں۔