ایک اور حادثہ، استعفا کون دے گا؟

505

گزشتہ جمعہ کو ریلوے کی غفلت سے کراسنگ پر پھاٹک نہ ہونے کی وجہ سے سکھ یاتریوں کی بس کو ٹرین نے کچل دیا اور 22 افراد ہلاک ہو گئے جن کا تعلق ایک ہی خاندان ٓسے تھا۔ ابھی اس حادثے کو ایک دن بھی نہ گزرا تھا کہ ہفتہ کے دن خانپور کے قریب ایکسپریس ٹرین مال گاڑی سے ٹکرا گئی۔ اس حادثے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا لیکن انجن کو تو نقصان پہنچا۔ حادثے کی وجہ سے دونوں طرف کی لائنیں گھنٹوں بند رہیں۔ اس حادثے کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ خود کار نظام کے تحت کانٹا بدل گیا تھا اور شالیمار ایکسپریس بھی اسی لائن پر آگئی جہاں مال گاڑی موجود تھی۔ سوال یہ ہے کہ شیخوپورہ کے قریب کراسنگ پر پھاٹک کیوں نہیں تھا اور اس حادثے کی ذمے داری کس پر عاید ہوتی ہے۔ ممکن ہے وزیر ریلوے شیخ رشید کہہ دیں کہ پھاٹک لگوانا ان کی ذمے داری نہیں اور مسافروں کی وین کے ڈرائیور نے آتی ہوئی ٹرین کو کیوں نہیں دیکھا۔ اسی طرح وہ کہہ سکتے ہیں کہ کیا وہ کوئی کانٹا بدلنے والے ہیں اور یہ کانٹا تو خود کار تھا، ان کا کیا قصور۔ شیخ رشید ابھی کورونا وائرس سے صحت یاب ہوئے ہیں لیکن ان کے نئے دور وزارت میں ٹرینوں کے کئی حادثے ہو چکے ہیں اور بطور وزیر ان تمام حادثوں کی ذمے داری انہی پر عاید ہوتی ہے۔ ان کے ممدوح عمران خان نے وزیراعظم بننے سے پہلے ایک ملک کی مثال دی تھی جہاں ایک کشتی الٹنے سے کئی افراد ڈوب گئے تھے تو وزیراعظم نے استعفا دے دیا تھا۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم تو کشتی نہیں چلا رہا تھا پھر بھی اس نے ذمے داری قبول کی۔ اب ٹرینوں کے حادثے ہوں یا ہوائی جہاز کے، نہ وزیراعظم نے استعفا دیا نہ وزیر ریلوے اور وزیر ہوا بازی نے، جس کی حماقت نے پوری فضائی صنعت کا بیڑا غرق کر کے رکھ دیا اور کوئی شرمندگی بھی نہیں۔ وزیراعظم اپنی ہی پیش کردہ مثال پر خود کب عمل کریں گے، وزرا کی بات تو چھوڑیے۔ شیخ رشید سے ریلوے کا نظام سنبھلتا نہیں، اب صحت یاب ہو کر انہوں نے اپنے محکمے میں ڈیڑھ لاکھ بھرتیوں کا اعلان کیا ہے، خدا خیر کرے۔ لیکن کیا ہی اچھا ہو کہ جہاں جہاں کراسنگ ہے پہلے وہاں پھاٹک لگوا دیں اور کانٹے کا خود کار نظام خراب ہے تو اس پر کوئی کانٹے والا مقرر کر دیں، خود کار نظام حکومت کا نہیں چل رہا تو ریلوے کا کیا چلے گا۔