کے الیکٹرک کی صریح بدمعاشی

1216

اوگرا ، نیپرا ، پیمرااور مسابقتی کمیشن کی طرح سرکار نے کئی ادارے اس مقصد کے لیے تشکیل دیے کہ نجی شعبے کی من مانیوں کو روکا جاسکے اور انہیں ایک حد کے اندر منافع کمانے کی اجازت کے ساتھ ساتھ معیار کو یقینی بنایا جاسکے ۔ سرکار نجی شعبے کو کس طرح سے ریگولیٹ کرے گی ، یہ بات تو الگ رہی سرکار خود ان ریگولیٹری اداروں کو ریگولیٹ کرنے میں ناکام ہے ۔ آج کے پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہی یہ ہے کہ کوئی ایک ادارہ بھی اپنا کام نہیں کررہا اور باڑھ سے ہی فصل کو خطرات لاحق ہیں۔ عدالت سے انصاف نہیں مل رہا ہے تو پولیس سے کسی کو تحفظ حاصل نہیں ہے ۔ ملک میں سب سے بڑے قانون شکن قانون بنانے والے اور قانون نافذ کرنے والے ہی ہیں ۔انتظامیہ کی ہر بالائی و درمیانے درجے کی اسامی پر ریٹائرڈاور حاضر سروس فوجی افسران کی تعیناتی ازخود ساری کہانی سنادیتی ہے کہ یا تو دیگر افراد سارے کے سارے ہی نااہل ہیں کہ اب ہر شعبے کے لیے فوج کی مدد کی ضرورت پڑتی ہے یا پھر بدو کے اونٹ کی کہانی صادق آچکی ہے ۔ پٹرول اور بجلی و گیس کی قیمتیں ملک کی معیشت کے لیے انتہائی اہمیت رکھتی ہیں ۔ بجلی اور گیس کی قیمتوں کا ملکی معیشت پر اثر کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ چین نے نئی فیکٹریوں کے لیے پانچ سال کے لیے بجلی مفت کردی جس کے باعث اس کی مصنوعات کم قیمت ہونے کی بناء پر دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا میں چھا گئیں اور انہوں نے مغربی دنیا کو ناک آؤٹ کردیا ۔ پاکستان کا حال ہی دوسرا ہے کہ ایسا محسوس ہوتا ہے یہاں پر پٹرول، گیس اور بجلی کی قیمت کا تعین کرنے والے ادارے اوگرا ور نیپرا جن اداروں کو ریگولیٹ کرنے کے لیے قائم کیے گئے ہیں ، اب وہی ادارے انہیں ریگولیٹ کررہے ہیں ۔پٹرول کمپنیوں کا ننگا ناچ تو ماہ جون میں سب نے ہی دیکھ لیا ۔ پہلے ہی ملک میں پٹرول کی قیمتیں اس کی لاگت کے مقابلے میںانتہائی زیادہ رکھی جاتی رہی ہیں ، جن کے بارے میں ان ہی صفحات پر ہم پہلے بھی کئی سوال اٹھا چکے ہیں ۔ سارے ٹیکس لگا کر اور خام تیل سے ریفائن حالت میں لانے کی لاگت لگا کر بھی خاصی رقم یہ تیل کمپنیاں خاموشی سے ڈکار جاتی ہیں اور حکومت ان سے کوئی سوال جواب نہیں کرتی ۔ اصولی طور پر جب تیل کی قیمتوں میں رد وبدل کیا جائے تو یہ صارفین کا حق ہے کہ ان کو بتایا جائے کہ مذکورہ قیمت کے تعین میں تیل کی قیمت خرید کیا رکھی گئی ہے اور اس پر ٹیکس و اخراجات کتنے ہیں تاکہ سب کچھ سیاہ و سفید میں رہے ۔ کچھ ایسی ہی صورتحال بجلی اور گیس کی نرخوں میں بھی ہے ۔بجلی پیدا کرنے والی اور انہیں تقسیم کرنے والی کمپنیوں کو ریگولیٹ کرنے والا ادارہ نیپرا عملی طور پر ان ہی کمپنیوں کے املا پر عمل کرتا ہے ، جنہیں اُسے ریگولیٹ کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے ۔ اگر معاملہ کے الیکٹرک کا ہو تو پھر نیپرا کی مستعدی دیکھنے والی ہوتی ہے ۔ اس وقت دنیا بھر میں تیل کی قیمتیں کریش کرگئی ہیں جبکہ کے الیکٹرک سرکاری اداروں پی ایس او اور سوئی سدرن گیس سے رعایتی نرخوں پر فرنیس آئل اور گیس خریدتا ہے اور اس کی قیمت بھی کبھی وقت پر ادا نہیں کرتا۔ اس کے علاوہ واپڈا سے سستی بجلی خرید کر کراچی کے صارفین کو مہنگے داموں فروخت کرتا ہے ۔ دنیا بھر میں تیل و گیس کی قیمتیں گرنے کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ کے الیکٹرک کے نرخوںمیں واضح کمی کی جاتی کہ اس کی پیداواری لاگت کم ہوگئی ہے ۔ اس کے بجائے نیپرا نے کے الیکٹرک کے املا پر عمل کرتے ہوئے نرخ میں زبردست اضافہ کرکے کراچی کے شہریوں کو الیکٹرک شاک دیا ہے ۔ اہل کراچی کو خوشخبری سنائی گئی ہے کہ یکم جولائی سے 2 روپے 89 پیسے فی یونٹ اضافہ کر دیا گیا ہے۔ یہ سب کچھ اس امر کے باوجود کیا گیا ہے کہ کے الیکٹرک نے کراچی میں بجلی کی پیداوار میں کمی کرکے تباہی پھیلائی ہوئی ہے ۔ کراچی کا کون سا علاقہ ہے جہاں پر لوڈ شیڈنگ نہیں کی جارہی ہے ۔ کئی علاقے تو ایسے ہیں جہاں پر 16 گھنٹے بھی لوڈ شیڈنگ کی جارہی ہے ۔ یہ لوڈ شیڈنگ اس لیے نہیں ہورہی ہے کہ کھپت و پیداوار کا معاملہ ہے اور اچانک ہی بجلی کی طلب میں زبردست اضافہ ہوگیا ہے ۔ کورونا کے باعث پیدا شدہ صورتحال میں کاروبار و صنعت سب کچھ ٹھپ ہوچکا ہے اور بجلی کی کھپت میں زبردست کمی ہوئی ہے ۔ لوڈ شیڈنگ میں کمی کی وجہ یہ ہے کہ کے الیکٹرک مجرمانہ طور پر اپنے پیداواری یونٹ چلا ہی نہیں رہی ہے ۔ وہ مسلسل بلیک میل کررہی ہے کہ اسے پی ایس او سے ادھار پر فرنیس آئل مہیا کیا جائے اور سوئی سدرن سے سستی قدرتی گیس مزید دی جائے ۔ ان سب کے بعد کے الیکٹرک سستی بجلی بنا کر مہنگی فروخت کرے گا ۔ اس کے بعد کے الیکٹرک کے دیگر معاملات الگ ہیں کہ وہ ایک ماہ اپنے صارف کو زیرو میٹر ریڈنگ کا بل بھیجتا ہے اور پھر اگلے ماہ میں ساری ریڈنگ لگا کر بل بھیجتا ہے ۔ اس طرح صارف 700 یونٹ کے بلند ترین سلیب میں پہنچ جاتا ہے اور وہ کئی گنا زاید بل دینے پر مجبور ہوتا ہے ۔ کے الیکٹرک کی اس طرح کی بدمعاشی کی کوئی روک تھام کرنے والا نہیں ہے ۔ اگر کوئی صارف اس طرح کے معاملات کے خلاف اپیل کرے تو دس فیصد تاخیر سرچارج وصول کرنے کے بعد بھی اس کی بجلی منقطع کردی جاتی ہے اور اس کے گھر پر کے الیکٹرک کے بدمعاشوں کی نجی فورس باقاعدہ حملہ کردیتی ہے ۔ عوام کی حالت اس وقت پولٹری فارم کی مرغیوں کی مانند ہے کہ ایک ہاتھ آگے بڑھتا ہے اور منتخب مرغی کو ذبح کردیا جاتا ہے ۔ نہ کہیں پر کوئی احتجاج ہے اور نہ ہی شنوائی ۔