لیاقت آباد،سرکاری اسپتال میں ملازمین کی خلاف ضابطہ ترقی کا انکشاف

201

کراچی(اسٹاف رپورٹر)سندھ گورنمنٹ اسپتال لیاقت آباد میں ملازمین کوخلاف ضابطہ ترقیاں دینے کا انکشاف ہوا ہے۔ عدالت عظمیٰ کے احکامات کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے اسپتال کے 9ملازمین آئوٹ آف کیڈر اور ایسی ترقیاں دی گئیں جن کی مثال نہیں ملتی۔دستیاب دستاویزات کے مطابق 2013ء میں 3 گریڈ میں بیئرر بھرتی ہونے والے انوا ر الحق کو 2019ء میں 7گریڈ میں اسٹور کیپر کے عہدے پر ترقی دی گئی جبکہ 2010ء میں 1گریڈ میں بھرتی ہونے والے نائب قاصد احمد شجاع کو 2016ء میں 11 گریڈ میں پرچی کلرک، 2009میں 2گریڈ پر وارڈ سرونٹ بھرتی ہونے والے محمد عرفان کو 2017میں 11گریڈ میں جونیئر کلرک بنادیا گیا۔2009ء میں 2 گریڈ پر وارڈ سرونٹ بھرتی ہونے والے مسرور احمد کاشف کو 2017ء میں گریڈ 12میں کمپیوٹر آپریٹر، 4 گریڈ میں ڈارک روم اٹینڈنٹ بھرتی ہونے والے محمد کمال کو 2012ء میں 12 گریڈ کے ڈیٹا پروسیسنگ آفیسر اور 2003ء میں 2 گریڈ میں وارڈ سرونٹ بھرتی ہونے والے محمد افضال کو 2012 ء میں 9 گریڈ میں ای سی جی ٹیکنیشن کے عہدے پر ترقی دی گئی۔ جبکہ ذرائع کے مطابق ان کا ای سی جی ٹیکنیشن کا ڈپلوما بھی جعلی تھا۔دستاویزات کے مطابق 2009 ء میں 2 گریڈ میں وارڈ سرونٹ بھرتی ہونے والے طاہر احمدخان کو 2017 ء میں گریڈ 4 میں آپریشن تھیٹر اٹینڈنٹ، 2009 ء میں 2 گریڈ میں وارڈ سرونٹ بھرتی ہونے والے جہانزیب کو 2016 ء میں 9 گریڈ میں لیبارٹری ٹیکنیشن جبکہ 1987 ء میں 7 گر یڈ میں جونیئر کلرک بھرتی ہونے والے زمان اسلام کو پہلے 2012 میں 12 گریڈ میں ڈیٹا پروسیسنگ آفیسر پھر 2017ء میں 14 گریڈ میں اکاونٹ اسسٹنٹ کے عہدے پر ترقی دی گئی۔واضح رہے کہ عدالت عظمیٰ میں دائر کردہ کرمنل اوریجنل پٹیشن نمبر 89 / 2011کے فیصلے میں عدالت عظمیٰ کے واضح احکامات ہیں کہ کسی بھی ملازم کا کیڈر تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔اس ضمن میں اسپتال کی میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر مادھوری لاکھانی کا کہنا تھا کہ اسپتال میں ملازمین نے ماحول خراب کر رکھا ہے، بیشتر ملازمین کی سروس کا ریکارڈ اسپتال میں سرے سے موجود ہی نہیں بلکہ انہوں نے اپنی سروس بک گھروں میں چھپا رکھی ہے۔اسپتال میں ان ورڈ اور آئوٹ ورڈ رجسٹر کے صفحات بھی غائب ہیں جس کی وجہ سے ریکارڈ دستیاب نہیں۔انہوں نے بتایاکہ یہ ترقیاں ان کے دور میں نہیں ہوئیں تاہم اگر محکمہ کہے گا تو ان غیر قانونی ترقیوں کو منسوخ کر دیا جائے گا بلکہ اس عرصہ کے دوران لی جانے والی تنخواہیں سرکاری خزانے میں واپس جمع کرانے کی سفارش بھی کی جائے گی۔