اسلامی حکومت کے قیام کیلیے سید منورحسن ؒ کا وژن واضح تھا‘ صدر پاکستان

424

لاہور(نمائندہ جسارت)سابق امیر جماعت اسلامی سید منورحسن ؒ کی یاد میں جمعے کو ایک تعزیتی ریفرنس منصورہ لاہور میں منعقد ہوا جس کی صدارت امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کی ،ریفرنس سے صدر مملکت عارف علوی ،سابق وزیر اعظم فلسطین اسماعیل ہانیہ ،سیکرٹری جنرل عالمی مجلس اتحاد العلما ڈاکٹر علی محی الدین قرداغی ،رکن پارلیمنٹ یوکے افضل خان جمعیت علما اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن ،مسلم لیگ ن کے جنرل سیکرٹری احسن اقبال ،سجاد میر ،افغانستان سے گلبدین حکمت یار ،بزرگ حریت رہنما سید علی گیلانی،امیر جماعت اسلامی ہند سید سعادت حسینی ، مولانا فضل الرحیم ،پیر اعجاز ہاشمی، سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی امیرالعظیم نے خطاب کیا ۔تعزیتی ریفرنس کے لیے قومی و بین الاقوامی شخصیات کے پیغامات بھی موصول ہوئے ۔مقررین نے کہا کہ سید منور حسن ایک نظریہ ،روشنی اور جہد مسلسل کا نام ہے ۔وہ لوگوں کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے ۔نظریاتی لوگوں کو موت فنا نہیں کرسکتی ایسے لوگوں کے سامنے موت خود فنا ہوجاتی ہے ۔سید منورحسن اس نسل سے تعلق رکھتے تھے جس نے پاکستان کی خاطر ہجرت کی اور ایک نظریے اور مقصد کی آبیاری کے لیے پوری زندگی گزاردی۔سید منورحسن پاکستان کو ایک حقیقی اسلامی و فلاحی ریاست بنانے کے لیے زندگی بھر سرگرم رہے ۔تعزیتی ریفرنس کی صدارت امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے کی۔اس موقع پر نائب امیر جماعت اسلامی ڈاکٹر معراج الہدیٰ صدیقی ، مولانا عبد المالک ،ڈپٹی سیکرٹری جنرل محمد اصغر ، اظہراقبال حسن ،عبد الرئوف ملک اور سیکرٹری اطلاعات قیصر شریف بھی موجود تھے ۔صدر مملکت عارف علوی نے وڈیولنک کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی دنیا کے اتحاد اور اسلامی حکومت کے قیام کے لیے سید منورحسنؒ کا وژن بڑا واضح تھا ۔سید منورحسنؒ سے میرے ذاتی اور خاندانی تعلقات تھے اور ہم نے بچپن اور جوانی اکٹھے گزاری ۔سید منورحسنؒ جس بات کو حق سمجھتے تھے اس پر ڈٹ جاتے تھے اور بڑی بے باکی سے اس کی ترجمانی کرتے تھے ۔انہوں نے کہا کہ میں دینی اور سیاسی معاملات میں اکثر سید منورحسنؒ سے رہنمائی لیتا تھا ۔ انہوں نے کہا کہ دینی لٹریچر خاص طور پر سید مودودی ؒ کی کتابیں میں نے اپنی والدہ سے لے کر پڑھیں ۔مجھے اسلامی لٹریچر سے خاص لگائو تھا اور اس کے اصل محرک میرے والدین اور میرے دوست سید منورحسن تھے ۔ سینیٹر سراج الحق نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ سید منورحسن محض ایک جسد خاکی نہیں اللہ سے محبت اور رسول اللہ ؐ کی اطاعت و فرمانبرداری کا ایک مکمل نمونہ تھے ۔وہ موت کے آئینے میں رخ دوست دکھانے والے قائد تھے ۔انہوں نے جوانی سے اپنی زندگی کے آخری دن تک اللہ کی اطاعت کو اپنی زندگی کا مقصد اولین بنائے رکھا اور60 سال تک باطل قوتوں کے ساتھ پوری استقامت کے ساتھ نبرد آزما رہے ۔انہوں نے کہا کہ حکمران آج کہتے ہیں کہ امریکی جنگ ہماری جنگ نہیں تھی جبکہ سید منورحسن نے یہ جنگ شروع ہونے سے بھی پہلے سب کو خبر دار کردیا تھا کہ یہ امریکی جنگ ہے ۔ انہوںنے کہا کہ آج ملک میں ظلم و جبر ہے ،مہنگائی اور بے روز گاری ہے ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی غلامی ہے ۔شیطانی سیاست ،جاگیردارانہ ظالمانہ نظام مسلط ہے ۔اس نظام میں کرپٹ سرمایہ داروں اور ظالم جاگیرداروں نے عوام کا خون چوس لیا ہے ۔اس نظام کو چیلنج کرنا ہمیں ہماری قیادت سید مودودی ؒ ،میاں طفیل محمد ؒ ، قاضی حسین احمد ؒ اور سید منورحسن ؒ نے سکھا یا ہے۔مولانا فضل الرحمن نے وڈیولنک کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ متحدہ مجلس عمل میں ہمارا قریبی تعلق رہا ،سید منورحسن کے اندر بے شمار قائدانہ خوبیاں تھیں وہ جو بات کرتے پوری دلیل کے ساتھ کرتے ۔ان کی گفتگو بڑی مدبرانہ، مدلل اور مؤثر ہوتی تھی ۔سید منورحسن کی وفات سے پاکستان ایک مخلص اورمدبر رہنما سے محروم ہوگیا ہے ۔ تعزیتی ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے احسن اقبال نے کہا کہ سید منورحسنؒ عمر بھر پاکستان کو ایک حقیقی اسلامی و فلاحی مملکت بنانے کے لیے کوشاں رہے۔ان کی جدوجہد کا مقصد یہی تھا کہ پاکستان کو ایسی ڈگر پر ڈال کر جائیں جس پر چلتے ہوئے یہ ایک مثالی اسلامی مملکت بن سکے ۔ ریاستی طاقت سے اداروں کو یرغما ل بنا کر ملک نہیں چلتے ۔جس ریاست میں انصاف کا قتل ہووہ ریاست کبھی کامیاب نہیں ہوتی۔اس ملک میں اداروں کو استعمال کرکے مرضی کے فیصلے ہوتے ہیں۔ آئین پاکستان واحد دستاویز ہے جس پر پوری قوم کو متحد کیا جاسکتا ہے ۔ سید منورحسنؒ اپنی پوری زندگی آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کے لیے سرگرم رہے ۔ سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی امیر العظیم نے کہا کہ سید منورحسنؒ ہمارے مربی و مرشد تھے ۔انہوںنے ہمیں حق بات کہنا اور پھر اس پر پوری استقامت سے ڈٹ جانا سکھایا ۔سید منورحسنؒ ظالم و جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنے والے مرد مجاد تھے ۔ان کی زندگی کا ایک ایک لمحہ ہمارے لیے مشعل راہ ہے اور ان کے نقش قدم پر چلنا ہم اپنی سعادت سمجھتے ہیں۔ فلسطین کے سابق وزیر اعظم اور حماس کے رہنما اسماعیل ہانیہ نے وڈیولنک کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سید منورحسنؒ القدس اور فلسطین کی آزادی کے لیے آخری دم تک ڈٹے رہے ، ان کی رحلت صرف پاکستانی قوم کے لیے دکھ اور صدمہ نہیں بلکہ پورے عالم اسلام اور امت مسلمہ کا مشترکہ دکھ او ر صدمہ ہے ۔ ہم اپنے ایک قائد اور مربی سے محروم ہوگئے ہیں ۔ان کی وفات سے عالم اسلام بہت بڑے نقصان سے دوچار ہوگیا ہے ۔ سینئر تجزیہ کارسجاد میر نے کہا کہ سید منورحسنؒ نے پورے اخلاص کے ساتھ ملک و قوم کی خدمت کی ۔ان کی فکری تربیت پروفیسر خورشید احمد اور سیاسی تربیت پروفیسر غفور احمد ؒ نے کی وہ پروفیسر غفور احمدؒ کے سیاست میں جونیئر پارٹنر تھے ۔سید منورحسنؒ نے ہمیشہ درست بات صحیح وقت پر کی ۔ان کی زندگی درویشی ،فقیری اور پارسائی کا مرقع تھی ۔تعزیتی ریفرنس سے خطاب میں سید منورحسن کے بیٹے سید طلحہ حسن نے کہا کہ میرے والد نے ہمیشہ مجھے حق اور سچ کے ساتھ کھڑے ہونے کی تلقین کی۔انہوں نے ہمیں حقوق اللہ اور حقوق العباد کو پورا کرنے اور دوسروں کے لیے ایثار اور قربانی کا درس دیا ۔میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے والد نے اپنے لیے جس مشکل زندگی کا انتخاب کیا تھا کامیابی اسی میں ہے ،میری زندگی کا مقصد بھی وہی ہے جو انہوں نے اپنے لیے متعین کیا تھا۔