افکار سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ

295

اصلاح اور اس کا طریقہ
میں آپ کو یہ نصیحت بھی کرتا ہوں کہ آپ اپنی اصلاح کے ساتھ آپس میں بھی ایک دوسرے کی اصلاح کریں۔ جو لوگ خدا کی خاطر کلمہ حق کی سربلندی کے لیے ایک جماعت بنیں انہیں ایک دوسرے کا ہمدرد و مددگار اور غم خوار ہونا چاہیے۔ انہیں یہ سمجھنا چاہیے کہ وہ اپنے مقصد عظیم میں کامیاب نہیں ہوسکتے جب تک کہ ان کی جماعت بحیثیت مجموعی اخلاق اور نظم کے لحاظ سے مضبوط نہ ہو۔ اور اس احساس کا نتیجہ یہ ہونا چاہیے کہ وہ سب ایک دوسرے کی تربیت میں مددگار بنیں اور ان میں سے ہر ایک دوسرے کو سہارا دے کر خدا کی راہ میں آگے بڑھانے کی کوشش کرے۔ اسلام میں اجتماعی تزکیے کا طریقہ یہی ہے۔ میں گرتا نظر آؤں تو آپ دوڑ کر مجھے سنبھالیں اور آپ لغزش کھا رہے ہوں تو میں بڑھ کر آپ کا ہاتھ تھام لوں۔ مادی دنیا میں جب لوگ ایک دوسرے سے لین دین کرتے ہیں تو مجموعی طور پر سب کی خوش حالی میں اضافہ ہوتا ہے۔ اسی طرح اخلاق و روحانیت کی دنیا میں بھی جب یہ امداد باہمی اور داد و ستد کا طریقہ چل پڑتا ہے تو پوری جماعت کا سرمایہ بڑھتا چلا جاتا ہے۔
باہمی اصلاح کا طریقہ یہ ہے کہ جس شخص کی کوئی بات آپ کو کھٹکے، یا جس سے کوئی شکایت آپ کو ہو، اس کے معاملے میں آپ جلدی نہ کریں، بلکہ پہلے اسے اچھی طرح سمجھنے کی کوشش کریں۔ پھر اولین فرصت میں خود اس شخص سے مل کر تخلیے میں اس سے بات کریں۔ اس پر اگر اصلاح نہ ہو تو معاملہ آپ کی نگاہ میں کچھ اہمیت رکھتا ہو تو اسے اپنے علاقے کے امیر جماعت کے نوٹس میں لائیں۔ وہ پہلے خود اصلاح کی کوشش کرے، اور پھر ضرورت ہو تو جماعت کے اجتماع میں اسے پیش کرے۔ اس پوری مدت میں اس معاملے کا ذکر غیرمتعلق لوگوں سے کرنا اور شخص متعلق کی غیرموجودگی میں اس کا چرچا کرنا صریحاً غیبت ہے، جس سے قطعی اجتناب کرنا چاہیے۔
(ہدایات، 1951 میں اجتماع عام کے اختتامی اجلاس میں دیے گئے خطبے سے مقتبس)
…٭…٭…٭
عبادتوں کا حاصل
نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ کے نام سے جو عبادتیں ہم پر فرض کی گئی ہیں ان کا اصل مقصد اسی بڑی عبادت کے لیے ہم کو تیار کرنا ہے۔ ان کو فرض کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اگر تم نے دن میں پانچ وقت رکوع اور سجدہ کر لیا، اور رمضان میں تیس دن تک صبح سے شام تک بھوک پیاس برداشت کرلی اور مالدار ہونے کی صورت میں سالانہ زکوٰۃ اور عمر میں ایک مرتبہ حج ادا کر دیا، تو آپ کا جوکچھ حق تم پر تھا وہ ادا ہوگیا اور اس کے بعد تم اس کی بندگی سے آزاد ہوگئے کہ جو چاہو کرتے پھرو، بلکہ دراصل ان عبادتوں کو فرض کرنے کی غرض یہی ہے کہ ان کے ذریعے سے آدمی کی تربیت کی جائے اور اس کو اس قابل بنا دیا جائے کہ اس کی پوری زندگی اللہ کی عبادت بن جائے۔ آئیے اب اسی مقصد کو سامنے رکھ کر ہم دیکھیں کہ روزہ کس طرح آدمی کو اس بڑی عبادت کے لیے تیار کرتا ہے۔
روزہ مخفی عبادت ہے!
روزے کے سوا دوسری جتنی عبادتیں ہیں وہ کسی نہ کسی ظاہری حرکت سے ادا کی جاتی ہیں۔ مثلاً نماز میں آدمی اٹھتا اور بیٹھتا اور کوع اور سجدہ کرتا ہے جس کو ہر شخص دیکھ سکتا ہے۔ حج میں ایک لمبا سفر کر کے جاتا ہے اور پھر ہزاروں لاکھوں آدمیوں کے ساتھ سفر کرتا ہے۔ زکوٰۃ بھی کم از کم ایک شخص دیتا ہے اور دوسرا شخص لیتا ہے۔ ان سب عبادتوں کا حال چھپ نہیں سکتا۔ اگر آپ ادا کرتے ہیں تب بھی دوسروں کو معلوم ہو جاتا ہے، اگر ادا نہیں کرتے تب بھی لوگوں کو خبر ہو ہی جاتی ہے۔ اس کے برخلاف روزہ ایسی عبادت ہے جس کا حال خدا اور بندے کے سوا کسی دوسرے پر نہیں کھل سکتا۔ ایک شخص سب کے سامنے سحری کھائے اور افطار کے وقت تک ظاہر میں کچھ نہ کھائے پیے، مگر چھپ کر پانی پی جائے، یا کچھ چوری چھپے کھا پی لے، تو خدا کے سوا کسی کو بھی اس کی خبر نہیں ہو سکتی۔ ساری دنیا یہی سمجھتی رہے گی کہ وہ روزے سے ہے اور وہ حقیقت میں روزے سے نہ ہوگا۔(خطبات)