نکاح: ولیمہ اور مہر…

403

حافظ محمد ساجد اسید ندوی
نبی اکرمؐ نے نکاح کے اعلان وشہرت کے مقصد سے دعوت ولیمہ کی تاکید فرمائی ہے، ولیمے کی دعوت کا تعلق مالی استطاعت سے ہے، یہ دعوت حسب استطاعت ہونی چاہیے وگرنہ یہ شادی سے رکاوٹ بن جائے گی۔
نبی اکرمؐ نے ایک طرف ولیمے کی تاکید فرمائی تو دوسری طرف عملا اس سلسلے میں امت کو سادگی اور عدمِ تکلف کی تعلیم دی، آپؐ نے سیدنا زینبؓ سے نکاح کے بعد محض ایک بکری سے، (بخاری، مسلم) سیدنا صفیہؓ سے نکاح کے موقع پر کھجور اور ستو سے (ترمذی) اور ایک دوسری بیوی سے عقد کے بعد فقط دو مُد (تقریباً سوا سیر) جَو (بخاری) کے ساتھ ولیمہ کیا۔ آپؐ نے نمائش والی دعوتوں میں شرکت سے منع فرمایا ہے، جیسا کہ آپؐ کا ارشاد ہے:
’’دو باہم مقابلہ کرنے والوں کی دعوت نہ قبول کی جائے، نہ ہی ان کا کھانا کھایا جائے‘‘۔ (شعب الایمان بیہقی)
موجودہ مسلمانوں کا طرز عمل
نکاح کی ترغیب وتاکید کے ساتھ اس کو آسان بنانے اور اس کی راہ میں رکاوٹ بننے والی چیزوں کو دور کرنے کے سلسلے میں کی گئی شرعی اور نبوی تدابیر کی یہ بعض مثالیں تھیں جو آپ کے سامنے آئیں، ایک طرف نکاح اور اس کی آسانی کے تعلق سے شریعت کی طرف سے اس قسم کی تدبیریں ہیں تو دوسری طرف مسلمانوں کی اکثریت کا طرز عمل ہے جو نکاح کے آسان بنانے سے متعلق شرعی اہتمام و ہدایات کے بالکل برعکس اور الٹا ہے۔
نکاح اور زندگی کا مغربی تصور
ایک طرف شریعت کی یہ تاکید ہے کہ نکاح کا انعقاد ہو اور فقر وتنگدستی کو اس بارے میں رکاوٹ نہ بننے دیا جائے تو دوسری طرف زندگی اور آسائشِ زندگی کا مغربی اور یورپی تصور ہے جس نے مسلمانوں کو اپنا غلام اور اسیر بنا لیا ہے، زندگی کے اس تصور کا مطلب یہ ہے کہ جب تک ایک لڑکا حسب استطاعت زندگی کی ساری ضرورتیں بہم نہ پہنچا لے اور آسائش کے سارے سامان (نوکری یا اچھی تجارت وغیرہ) نہ جمع کر لے اور ایک لڑکی جب تک اعلیٰ تعلیمی ڈگری حاصل کر کے خود کو ترقی یافتہ سوسائٹی کا فرد ثابت نہ کردے، شادی غیر ضروری بلکہ نامناسب چیز ہے خواہ عمر کا اچھا خاصا حصہ اس خواہش و کوشش کی نذر کیوں نہ ہو جائے اور خواہش نفس سے مجبور ہو کر بدکاری کی راہ سے ہی کیوں نہ گزرنا پڑ جائے؟
بھاری بھرکم مہر کی مصیبت
شریعت نے نکاح کو آسان بنانے کی خاطرآسان سے آسان مقدار مہر متعین کرنے کی ترغیب دی ہے لیکن بعض مقامات پر لڑکی والوں کی طرف سے اپنی بڑائی کے اظہار کے لیے یا بعض ذہنوں کے مطابق اس مقصد کی خاطر کہ مہر کی زیادتی لڑکے کو طلاق سے روکنے کا ذریعہ بنے گی لڑکوں سے گراں قدر مہر کا مطالبہ کیا جاتا ہے، حالانکہ مہر کی زیادتی نہ فخر وبڑائی کا ذریعہ ہے، اس لیے کہ شرف اور بڑائی دوسروں کو دینے اور ان پر آسانی کرنے میں ہے نہ کہ دوسروں سے لینے اور ان کو تنگی وپریشانی میں ڈالنے میں اور نہ ہی لڑکی کی طلاق سے حفاظت کا ذریعہ ہے، اس لیے کہ نبی اکرمؐ نے مذکورہ بالاحدیث میں مہر کی آسانی کو برکت کی علامت قرار دیا ہے، تابعی جلیل عروہ بن زبیرؒ اس حدیث کو بیان کرنے کے بعد کہتے ہیں:
’’میں اپنی طرف سے کہتا ہوں کہ عورت کی پہلی بے برکتی اور نحوست یہ ہے کہ اس کا مہر زیادہ ہو‘‘۔ (مستدرک حاکم)
ظاہر سی بات ہے کہ مہر کی زیادتی اور گراں قدری کا یہ رجحان بھی شادی کی راہ میں رکاوٹ بننے والا ہے، سعودی عرب میں گراںقدر مہر کی یہ بیماری چونکہ عام ہے، جیسا کہ وہاں کے سابق مفتی اعظم شیخ محمد بن ابراہیمؒ تحریر فرماتے ہیں:
’’مہر کی گراںقدری کا مسئلہ فی زمانہ ان بڑے مسائل میں سے ایک ہے جن کے حل کی فکر ضروری ہے، اس لیے کہ اس سے بہت سے مفاسد ونقصانات سامنے آرہے ہیں، مثال کے طور پر:
1۔شادی کی قلت، جو غیر شادی شدہ مردو عورت کی کثرت اور بگاڑ وفساد کے پھیل جانے کا سبب ہے۔
2۔اسراف و تبذیر جو شرعاً ممنوع ہے۔
3۔ولی کی اپنی زیر ولایت لڑکیوں کے ساتھ خیانت، اس لیے کہ وہ صالح اور مناسب رشتے کو محض اس لیے ٹھکرا دیتا ہے کہ وہ زیادہ مہر نہیں دے سکے گا‘‘۔ (مجموعۃ ثلاث رسائل ص 100)
اس لیے ایک رپورٹ کے مطابق صرف شہرِ جدہ میں شادی کی عمر کو پہنچی ہوئی چار لاکھ لڑکیاں ہیں، ان کی عمریں سولہ سے تیس سال کے درمیان ہیں، تیس سال سے زائد عمر کی خواتین کی گنتی اس میں شامل نہیں، واضح رہے کہ شہر جدہ کی مجموعی آبادی تیس لاکھ ہے۔
ولیمے کی پر تکلف اور اسراف پر مبنی دعوتیں
نبی اکرمؐ نے ولیمے کی ترغیب کے ساتھ عملا اس سلسلے میں سادگی اور عدم تکلف کی تعلیم دی ہے، لیکن مسلمانوں نے اسے بھی نکاح کی راہ میں ایک بہت بڑی رکاوٹ کی شکل دے دی ہے، موجودہ مسلمانوں نے نمود ونمائش کے جذبے سے اس کو اسراف کا ذریعہ بنا لیا ہے اور اس طرح یہ دعوت بھی اب نکاح کے سلسلے میں ایک بہت بڑی رکاوٹ بن چکی ہے، ایک آدمی اس وقت تک نکاح کی سوچ ہی نہیں سکتا جب تک کہ وہ پر تکلف دعوت کے اخراجات و وسائل کا انتظام نہ کر لے۔