دین کے بنیادی تقاضوں میں رخصت

331

محی الدین غازی
اللہ کے مومن بندے اگر ایسی جگہ ہوں جہاں وہ دین پر قائم نہ رہ سکیں، تو ان کے لیے لازم ہے کہ وہ وہاں سے نکل جائیں، اور اللہ کی کشادہ زمین میں مناسب جگہ جاکر سکونت اختیار کریں۔ جو لوگ استطاعت کے باوجود ایسا نہ کرکے دین چھوڑنا قبول کرلیں گے ان کے لیے سخت عذاب کی وعید ہے، تاہم اللہ کی رحمت ان لوگوں کو ڈھانپ لیتی ہے جو چاہنے کے باوجود ایسا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ فرمایا:
’’جو لوگ اپنے نفس پر ظلم کر رہے تھے اْن کی روحیں جب فرشتوں نے قبض کیں تو ان سے پوچھا کہ یہ تم کس حال میں مبتلا تھے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم زمین میں کمزور و مجبور تھے فرشتوں نے کہا، کیا خدا کی زمین وسیع نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کرتے؟ یہ وہ لوگ ہیں جن کا ٹھکانا جہنم ہے اور بڑا ہی برا ٹھکانا ہے۔ ہاں جو مرد، عورتیں اور بچے واقعی بے بس ہیں اور نکلنے کا کوئی راستہ اور ذریعہ نہیں پاتے، بعید نہیں کہ اللہ انہیں معاف کر دے، اللہ بڑا معاف کرنے والا اور درگزر فرمانے والا ہے‘‘۔ (النساء 97-99)
جب اللہ کے دین کا تقاضا ہو تو اپنی جان ومال کے ساتھ حاضر ہوجانا لازم ہے، جو ایسا نہ کرے اس کے لیے سخت وعیدیں ہیں، تاہم جن کے پاس راہ خدا میں نکلنے کی طاقت نہ ہو، اور جن کے پاس راہ خدا میں نکلنے کے لیے سامان سفر نہ ہو، ان کے لیے اللہ کی رحمت بس اتنا ضروری قرار دیتی ہے کہ ان کی زندگی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت میں گزرے، اور ان کے دل اللہ اور اس کے رسول کی محبت وخیر خواہی سے آباد رہیں۔ ذیل میں درج دونوں آیتوں میں ایسے غیر مستطیع لوگوں کا تذکرہ جس پیار سے کیا گیا ہے وہ دیر تک محسوس کرنے والی بات ہے۔
اگر اندھا اور لنگڑا اور مریض جہاد کے لیے نہ آئے تو کوئی حرج نہیں جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا اللہ اسے اْن جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی، اور جو منہ پھیرے گا اسے وہ دردناک عذاب دے گا۔ (الفتح: 17)
ضعیف اور بیمار لوگ اور وہ لوگ جن کے پاس خرچ کرنے کے لیے کچھ نہیں ہے، اگر پیچھے رہ جائیں تو کوئی حرج نہیں جبکہ وہ خلوص دل کے ساتھ اللہ اور اس کے رسولؐ کے وفادار ہوں، محسنین پر گرفت نہیں ہے اور اللہ درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ اسی طرح اْن لوگوں پر بھی کوئی گرفت نہیں ہے جنہوں نے خود آ کر تم سے درخواست کی تھی کہ ہمارے لیے سواریاں بہم پہنچائی جائیں، اور جب تم نے کہا کہ میں تمہارے لیے سواریوں کا انتظام نہیں کرسکتا تو وہ مجبوراً واپس گئے اور حال یہ تھا کہ ان کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے اور انہیں اس بات کا بڑا رنج تھا کہ ان کے پاس کچھ نہیں جو اللہ کی راہ میں خرچ کرسکیں۔ (التوبہ: 91، 92)
منکر اور برائی کو مٹانے کی کوشش کرنا دین کا بنیادی فریضہ اور مسلمان ہونے کا اہم تقاضا ہے، تاہم وہ بھی استطاعت کے اصول کے تحت ہی رکھا گیا ہے، رسول پاکؐ کا فرمان ہے:
تم میں سے جو برائی دیکھے وہ اسے اپنے ہاتھ سے بدل ڈالے، اگر وہ اس کی استطاعت نہ رکھے تو اپنی زبان سے بدل ڈالے، تو اگر وہ اس کی استطاعت نہ رکھے تو اپنے دل سے بدل ڈالے، اور یہ کم زور ترین ایمان ہے۔ (صحیح مسلم)
اس دینی فریضے کی ادائیگی میں حسب استطاعت تخفیف تو ہوجائے گی لیکن اس سے خلاصی اور بے تعلقی کبھی بھی جائز نہیں ہے۔ کیوں کہ رخصت دینی تقاضوں سے فرار کا نام نہیں ہے، بلکہ ہر طرح کے مشکل اور غیر معمولی حالات میں بھی دین پر حسب ہدایت عمل پیرا رہنا ہے۔