صغائر کی قباحتیں…

315

علامہ یوسف القرضاوی
امام غزالیؒ نے احیاء علوم الدین کی ’’کتاب التوبہ‘‘ میں ان صغائر کا ذکر کیا ہے جو صغائر کو کبائر میں بدل دیتے ہیں اور کبائر کے حجم میں اضافہ کر دیتے ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ آدمی گناہ کو معمولی سمجھے اور معصیت کو حقیر جانے۔ حتیٰ کہ بعض سلف نے کہا ہے کہ جس گناہ کے بارے میں معاف نہ ہونے کا خدشہ ہوتا ہے، وہ ایسا گناہ ہے جس کا ارتکاب کرنے والا کہتا ہے: کاش کہ میرا پچھلا گناہ بھی اس طرح ہوتا جیسا کہ یہ ہے۔ ان امور میں سے ایک اور امر گناہ پر اصرار کرنا اور بے شرمی کا مظاہرہ کرنا ہے۔ صحیح حدیث میں آیا ہے: ’’میرے تمام امتیوں کو معافی ہوگی، سوائے ان لوگوں کے جو کھلے عام گناہ کرتے ہیں‘‘۔
ابن قیمؒ کہتے ہیں: یہاں ایک ضروری امر ہے جس کو سمجھنا لازمی ہے، یہ کہ کبیرہ کے ساتھ بعض اوقات حیا، خوف اور اس کو بْرا سمجھنے کا احساس مل جاتا ہے تو وہ اسے صغائر میں شامل کر دیتے ہیں۔ اور کبھی صغیرہ گناہ کے ساتھ حیا کی کمی، بے پروائی اور خوف شامل ہو جاتا ہے، تو یہ چیز اسے کبائر کے ساتھ جوڑ دیتی ہے، بلکہ اسے ان کا بلند ترین مرتبہ دے دیتی ہے۔ (مدارج المسالکین)
اسی طرح کبھی ایک ہی معصیت ہوتی ہے، مگر اس کا ارتکاب کرنے والے شخص یا اس کے حالات کے لحاظ سے اس کے گناہ میں فرق ہوتا ہے۔ چنانچہ غیر شادی شدہ کے زنا اور شادی شدہ کے زنا میں فرق ہوتا ہے، جوان اور بوڑھے کے زنا میں بھی فرق ہوتا ہے، اور اسی طرح پڑوسی کی بیوی یا اس شخص کی بیوی سے زنا کرنا جس کا شوہر جہاد میں شریک ہو، یا محرم عورت کے ساتھ، یا رمضان کے دنوں میں، یا حرم میں زنا، دوسرے حالات میں زنا سے زیادہ ناپسندیدہ ہوتا ہے۔ ہر چیز کا اللہ کے ہاں مقررہ حساب ہوتا ہے۔
اس مقام پر علامہ ابن رجبؒ کا بہت خوبصورت بیان ہے۔ اس کے فائدے کی خاطر ہم اسے یہاں نقل کرنا چاہتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں:
وہ محرمات جن کی حرمت کتاب وسنت میں قطعی ہو، وہ حرام ہیں جیسے:
’’ان سے کہو کہ آئو میں تمہیں سنائوں تمہارے رب نے تم پر کیا پابندیاں عائد کی ہیں: یہ کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، اور والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو، اور اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو‘‘۔ (الانعام: 151) یہاں سے لے کر تیسری آیت کے آخر تک۔
’’ان سے کہو کہ میرے رب نے جو چیزیں حرام کی ہیں وہ تو یہ ہیں، بے شرمی کے کام، خواہ کھلے ہوں یا چھپے اور گناہ اور حق کے خلاف زیادتی اور یہ کہ اللہ کے ساتھ تم کسی ایسے کو شریک کرو جس کے لیے اس نے کوئی سند نازل نہیں کی، اور یہ کہ اللہ کے نام پر کوئی ایسی بات کہو، جس کے متعلق تمہیں معلوم نہ ہو (کہ وہ حقیقت میں اسی نے فرمائی ہے)‘‘۔ (الاعراف: 33)
بعض آیات میں کسی ایک نوع کے ساتھ مخصوص محرمات کا ذکر کیا گیا ہے۔ بعض مقامات پر کھانے پینے کے محرمات کا ذکر ہے۔ ایک مقام یہ ہے: ’’ان سے کہو کہ جو وحی میرے پاس آئی ہے اس میں تو میں کوئی چیز ایسی نہیں پاتا جو کسی کھانے والے پر حرام ہو، اِلّا یہ کہ وہ مردار ہو، یا بہایا ہوا خون ہو، یا سور کا گوشت ہو کہ وہ ناپاک ہے، یا فسق ہو کہ اللہ کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیا گیا ہو‘‘۔ (الانعام :145)
اور یہ کہ ’’اللہ تعالیٰ کی طرف سے اگر کوئی پابندی تم پر ہے تو وہ یہ کہ مردار نہ کھائو، خون سے اور سور کے گوشت سے پرہیز کرو، اور کوئی ایسی چیز نہ کھائو جس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام لیا گیا ہو‘‘۔ (البقرہ: 173)
ایک اور آیت میں ہے: ’’اور ایسی چیز جس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام لیا گیا ہو‘‘۔ (النحل: 115)
فرمایا: ’’تم پر حرام کیا گیا مردار، خون، سور کا گوشت، وہ جانور جو خدا کے نام کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیا گیا ہو، اور وہ جو گلا گھٹ کر، یا چوٹ کھاکر، یا بلندی سے گر کر، یا ٹکر کھا کر مرا ہو، یا جسے کسی درندے نے پھاڑا ہو، سوائے اس کے جسے تم نے زندہ پاکر ذبح کر لیا ہو، اور وہ جس کو کسی آستانے پر ذبح کیا گیا ہو۔ نیز یہ بھی تمہارے لیے ناجائز ہے کہ پانسوں کے ذریعے سے اپنی قسمت معلوم کرو‘‘۔ (المائدہ :3)
محرماتِ نکاح کو اللہ تعالیٰ نے سورہ النساء کی آیت 23 میں بیان کیا ہے: ’’تم پر حرام کی گئیں تمہاری مائیں، بیٹیاں… وغیرہ۔
کمائی کے حوالے سے محرمات کو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان کیا ہے: ’’اللہ تعالیٰ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سْود کو حرام‘‘۔ (البقرہ: 275)
سنت میں بھی بہت سے محرمات کا ذکر آیا ہے۔ جیسے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے شراب، مردار، سور اور بتوں کی خرید و فروخت حرام کی ہے‘‘۔ (بخاری، مسلم، ابودائود)
دوسری جگہ رسول اللہؐ فرماتے ہیں: ’’اللہ تعالیٰ جس چیز کو حرام کرتا ہے اس کی قیمت بھی حرام ہوتی ہے‘‘۔ (ابودائود)
ایک اور جگہ ارشاد ہے: ’’ہر نشہ آور چیز حرام ہے‘‘۔(مسلم، ترمذی، نسائی)۔ نیز فرمایا: ’’تمہارے مال اور تمہاری عزتیں تمہارے لیے حرام ہیں‘‘
چنانچہ معلوم ہوا کہ جس چیز کی حرمت پر کتاب و سنت میں تصریح ہو، وہ حرام ہوتی ہے۔