مہنگائی اور عمران خان کا قول زریں

1025

سرکار کے اپنے ادارے وفاقی ادارہ شماریات نے گواہی دی ہے کہ گزشتہ ماہ جون میںملک میں مہنگائی کی شرح میں ساڑھے آٹھ فیصد سے زاید اضافہ ریکارڈ کیا گیا ۔ اس سے گزشتہ ماہ مئی میں بھی تقریبا ایسی ہی صورتحال تھی ۔ وفاقی ادارہ شماریات کے ان اعداد و شمار کا مطلب یہ ہے کہ سال میں مہنگائی میں تقریبا سو فیصد اضافہ یعنی عوام کی قوت خرید ایک سال میں نصف رہ گئی ۔ اس کے مقابلے میں وزیر اعظم عمران خان نے ملازمین کی تنخواہوں میں ایک فیصد بھی اضافہ کرنے سے انکار کردیا ۔بات صرف اتنی نہیں ہے کہ عمران خان نے بجٹ میں ملازمین کی تنخواہوںمیں اضافہ نہیں کیا بلکہ جن مراعات یافتہ افراد کی تنخواہوں میں اضافہ مطلوب تھا ، ان کی تنخواہوں میں اضافہ بجٹ سے قبل ہی کردیا گیا ۔ وزیر اعظم عمران خان نے تو باقاعدہ شکوہ کیا تھا کہ موجودہ تنخواہ میں ان کا گزارا نہیں ہوتا ۔ پنجاب اسمبلی کے اراکین کی تنخواہوں میں خود ہی بھاری بھرکم اضافہ کرلیا اور گورنر صاحب نے خاموشی سے اسے منظور بھی کرلیا ۔ اسی طرح ایوان وزیر اعظم کے چہیتے اسٹاف کی تنخواہوں میں بھی چپکے سے اضافہ کردیا گیا ۔ دیگر چہیتوں کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کی بھی یہی صورتحال ہے ۔ معاملات خراب ہیں تو صرف عوام کے لیے کہ ہر ماہ مہنگائی میں زبردست اضافہ کردیا جائے ۔ طرفہ تماشا یہ کہ مہنگائی میں اس بھرپور اضافے کی ہر طرح سے ذمہ دار خود حکومت ہے ۔ بلا کسی وجہ کہ ہر روز ڈالر کے مقابلے میں روپے کی بے قدری جاری ہے جس کی وجہ سے ہر چیز ہی ملک میں بے قدر ہو کر رہ گئی ہے ۔ اس پر مزید کمال یہ ہے کہ عمران خان کے دائیں بائیں بیٹھے بااثر لوگ کبھی آٹے کا مصنوعی بحران پید اکرتے ہیں تو کبھی چینی کا ۔ ایک سرکاری تحقیقاتی ایجنسی چینی کے اسکینڈل میں ملوث افراد کے نام پیش کرتی ہے تو اپنی ہی تحقیقاتی ایجنسی پر عدم اعتماد کرتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ اس کے لیے کمیشن بٹھایا جائے گا ۔ جب کمیشن کی رپورٹ سامنے آجاتی ہے تو پھر بھی ذمہ داروں کے خلاف کوئی قدم اٹھانے کے بجائے انہیں فرار کے بھرپور مواقع فراہم کیے جاتے ہیں ۔ اب چینی کے بااثر مالکان کبھی ایک عالت سے حکم امتناع حاصل کرتے ہیں تو کبھی دوسرے سے اور یوں چینی کی قیمت میں راتوں رات اضافہ ہوگیا ۔ عدالت نے شوگر ملوں کے مالکان کو حکم دیا کہ 70 روپے فی کلو کے حساب سے چینی فروخت کی جائے مگر مل مالکان نے یہ حکم ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے اڑا دیا اور ان کے خلاف توہین عدالت کی کوئی کارروائی بھی نہیں ہوئی ۔کچھ ایسی ہی صورتحال پٹرول مافیا کے ساتھ پیش آئی ۔ دنیا بھر میں پٹرول کی قیمتیں کریش کرگئیں مگر پاکستان میں ان کا اثر عوام تک پہنچنے میں ڈیڑھ ماہ کا عرصہ لگا ۔ ڈیڑھ ماہ میںجب پٹرول کمپنیوں نے خوب منافع کما لیا تو حکومت نے قیمتیں کم کیں جس میں مزید گنجائش موجود تھی ۔ پٹرول مافیا اتنی طاقتور تھی کہ اس نے 25 روز تک ملک بھر میں پٹرول کی فراہمی معطل رکھی ۔ کوئی اور ملک ہوتا تو پٹرول معطل کرنے کے جرم میں ان کمپنیوںپر بھاری جرمانے عاید کرتا اور انہیں ملک سے چلتا کرتا ۔ سرکاری ادارے اوگرا نے پوری صورتحال حقائق اور مجرموں کے نام کے ساتھ حکومت کے سامنے پیش کردیں ۔ ان کے ساتھ وہی کچھ ہوا جو شوگر مافیا کے ساتھ ہوا تھا یعنی ان کے ساتھ مذاکرات کرکے قیمت میں راتوں رات بھاری اضافہ کردیا گیا ۔ کہاں اوگرا نے مزید سات روپے فی لیٹر کمی کی سفارش کی تھی اور کہاں حکومت نے 25 روپے فی لیٹر کا اضافہ کردیا ۔ اس سے عمران خان نیازی کی حکومت کی مضبوطی اور سرکاری رٹ کا اندازہ کیا جاسکتا ہے ۔ عمران خان کے دور حکومت میں عجب حال ہوا ہے کہ جس کا جو جی چاہتا ہے وہ کر گزرتا ہے ۔ اس کا نہ تو عدلیہ کچھ بگاڑ پاتی ہے اور نہ ہی انتظامیہ ۔ اس وقت تو انارکی کا یہ عالم ہے کہ کسی کو علم ہی نہیں ہے کہ ملک میں حکمراں کون ہے اور کس کا حکم چلتا ہے ۔ عمران خان اگر کسی ایک مافیا کے خلاف ہی کوئی قدم اٹھالیتے تو شاید وطن عزیز میں قانون کی حکمرانی بحال ہوجاتی ۔ عدلیہ کا یہ حال ہے کہ ایک عام سائل اگر زور سے فریاد کرلے تو عدالت اسے توہین عدالت کے جرم میں فوری گرفتار کرلیتی ہے او ر اگر کوئی بااثر فرد اعلیٰ ترین عدلیہ کا بھی تمسخر اڑالے ، تو عدلیہ کنارہ کرلیتی ہے ۔ کچھ یہی صورتحال انتظامیہ اور حقیقی حکمرانوں کی ہے ۔ حکومت کی رٹ تو اسی روز واضح ہوگئی تھی جب سانحہ ساہیوال کے مجرموں کو شواہد نہ ہونے کی بناء پربری کردیا گیا ۔ عمران خان نے معاشیات و مالیات کے سارے امور آئی ایم ایف کے فرستادوںکے سپرد کررکھے ہیں ۔یہی ٹیکس لگانے کا فیصلہ کرتے ہیں ، یہی حکم دیتے ہیں کہ ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کو مزید کتنا گرانا ہے ، یہی حکم صادر کرتے ہیں کہ ملازمین کی تنخواہوںمیں اضافہ نہیں کرنا ہے اور یہی بتاتے ہیں کہ ملک کے سارے اہم ادارے فوری طور پر نجی شعبے کے حوالے کردیے جائیں ۔عمران خان ایک دفعہ تو زمین پر اتریں اور دیکھیں کہ انہوں نے عوام کا کیا حال کیا ہے ۔ ان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے صرف آٹے کی قیمت ہی دگنی ہوچکی ہے ۔ ایک مرتبہ وہ اپنی انتخابی تقریریں خود ہی سن لیں اور پھر فیصلہ کریں کہ پاکستان اور عوام پر مزید کتنا ستم کرنا ہے ۔ وہ اپنا یہ قول ہی یاد کر لیں کہ مہنگائی بڑھنے کا مطلب ہے حکمران چور، ڈاکو ہیں ۔