شوگر انکوائری کمیشن رپورٹ پر فوری کارروائی کی حکومتی استدعا مسترد

437

سپریم کورٹ نے شوگر کمیشن رپورٹ پر فوری کارروائی کی حکومتی استدعا مسترد کردی چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ رپورٹ کالعدم ہونے سے بھی شوگر ملز کو کچھ نہیں ملے گا، ریگولیٹری اداروں کو کام سے نہیں روکا جاسکتا،سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ آئندہ سماعت تک برقرار رہےگا۔

تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 2 رکنی  بینچ  نےشوگر کمیشن رپورٹ پر کارروائی روکنے کیخلاف حکومتی اپیل پر سماعت ہوئی۔

سماعت کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا اسلام آباد ہائیکورٹ نے بھی مقدمے میں فیصلہ دیا ہے، کیا سندھ ہائیکورٹ کے علم میں یہ بات نہیں لائی گئی ؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ شوگر ملز مالکان کی درخواست میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کا ذکر ہے، سندھ ہائیکورٹ کے عبوری حکم میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کا ذکر نہیں۔

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ کمیشن رپورٹ میں شوگر ملز مالکان پر بہت سے الزامات سامنے آئے ہیں،چیف جسٹس نے کہا کیا کمیشن کو شوگر ملز کو موقف کا موقع نہیں دینا چاہئے تھا،جس پر اٹارنی جنرل نے کہا فیکٹ فائنڈنگ کمیشن کے سامنے موقف دینے کی ضرورت نہیں تھی، تاحال کمیشن کی کاروائی کو کالعدم قرار نہیں دیا گیا، تمام ایگزیکٹو اتھارٹیز کو فعال کر دیا گیا ہے، کمیشن کی رپورٹ آنکھیں کھولنے کے مترادف ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے پوچھا کیا کمیشن کی رپورٹ پر شوگر ملز کیخلاف کوئی ایکشن لیا گیا، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کچھ شوگر ملز مالکان خیبرپختونخوا اور کچھ بلوچستان ہائیکورٹ چلے گئے، کچھ شوگر ملز مالکان نہیں چاہتے کہ رپورٹ پر اتھارٹیز کاروائی کریں۔

چیف جسٹس نے کہا یہ محض کمیشن رپورٹ ہے، اس پر حکم امتناع کیوں لینا چاہتے ہیں۔شوگر مل مالکان کے وکیل مخدوم علی خان نے عدالت کو بتایا کہ ایگزیکٹو احکامات کو مالکان نے مختلف ہائی کورٹس میں چیلنج کیا، ہائی کورٹس سے مالکان کا رجوع کرنا معمول سے ہٹ کر نہیں ہے۔

جسٹس اعجازلاحسن نے کہا سندھ ہائی کورٹ کے پاس وہی ملز مالکان گئے جو اسلام آباد ہائی کورٹ گئے، ایک ہی ایسوسی ایشن دو مختلف ہائیکورٹس سے کیسے رجوع کرسکتی ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا شوگر کمیشن کی رپورٹ پر ملز مالکان کی تشویش کیا ہے؟ جس پر وکیل مخدوم علی خان نے کہا شوگر ملز ایسوسی ایشن نے ذاتی حیثیت سے اسلام آبادہائی کورٹ سے رجوع کیا، کمیشن کی رپورٹ میں محض سفارشات دی گئی ہیں، کسی رپورٹ میں متاثر کن فائنڈنگ آئے تو دعوی دائر کیا جاسکتا ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا بظاہر کمیشن نے فیکٹ فائینڈنگ رپورٹ دی ہے، کمیشن نے ڈیل اور بہت سی چیزوں کی نشاندہی کی، کمیشن کی رپورٹ متعلقہ اداروں کو کارروائی کے لئے بھیجی گئی ہے، ریاستی ادارے اگر شوکاز نوٹس جاری کرتے ہیں تو اپنا موقف وہاں پیش کریں۔ چیف جسٹس نے کہا ابھی کسی شوگر مل کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔

جسٹس اعجازلا حسن نے کہا رپورٹ کے مطابق شوگر مل والوں کو نہیں سنا گیا، چینی کی قیمتیں بڑھنے پر پورے ملک میں شور مچا، کابینہ نے رپورٹ متعلقہ اداروں کو بھجوا دی ہے، آپ چاہتے ہیں کہ رپورٹ کو کالعدم قرر دیا جائے، متعلقہ ادارے پھر سے صفر سے کام شروع کریں، اس طرح تو معاملے پر دس سال لگ جائیں گے۔

اوکیل مخدوم علی خان ن یکہا عدالت نے دیکھنا ہے کہ کیا کمیشن قانون کے مطابق بنایا گیا، دیکھنا ھوگا کہ کیا کمیشن غیر جانبدار تھا، دیکھنا ہوگا کہ کیا کمیشن نے شوگر ملز مالکان کا موقف سنا، اگر ان چیزوں کا خیال نہیں رکھا جاتا تو عدالتیں مداخلت کرسکتی ہیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کمیشن کی رپورٹ شوگر مل مالکان کو متاثر کیسے کر سکتی ہے؟، حکومت کئی مواقع پر کمیشن بنا چکی لیکن رپورٹس سامنے نہیں آئیں، کیا آپ چاہتے ہیں کہ عدالت کمیشن کی رپورٹ کالعدم قرار دے؟، شوگر کمیشن رپورٹ سے شوگر مل والوں کے حقوق کیسے متاثر ہوئے؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا یہ بہت بڑا معاملہ ہے جس سے لوگ متاثر ہوئے ہیں۔عدالت نے سماعت 14 جولائی تک ملتوی کر دی۔