مربی، مفکر، مجاہد، قائد… منور

855

سید منور حسن کے بارے میں لوگ جتنا لکھیںکم ہی ہوگا چند روز یہ لکھنے لکھانے کا سلسلہ رہے گا اور پھر سال بہ سال انہیں یاد کیا جاتا رہے گا اور بس… منور صاحب کے بارے میں اکثر لوگوں کا کہنا اور لکھنا ہے کہ وہ تقریر بڑی اچھی کرتے تھے۔ اس میں کوئی شک بھی نہیں۔ لیکن منور صاحب کی تقریر اور گفتگو میں ہوتا کیا تھا۔ اگر یہ کہا جائے کہ ایمان، عمل، آخرت، گناہ ثواب، اللہ کی رضا شیطان سے ہر لمحے جنگ اور مخلوق خدا خصوصاً مظلوم کی آواز بننا یہ سب کچھ ان کی تقریروں میں ہوتا تھا اور تقریر کیا ان کی پوری زندگی انہی چیزوں کے گرد گھومتی تھی۔ منور حسن سے واقفیت تو اس روز ہوئی جب 1977ء میں انتخابات کے دوران ہمارے بھائی منور حسن کی چیف پولنگ ایجنٹ (خواتین) فردوس باجی کے گھر کے سامنے طیبہ ٹینٹ ہائوس سے میزیں قناتیں لا کر لگوا رہے تھے بجلی بھی فردوس باجی کے گھر سے لی گئی وہ سابق بی ڈی ممبر ہدیٰ صاحب کی بیٹی تھیں اور ہدیٰ صاحب بھی منور صاحب کے دیوانے تھے۔ اس روز سید صاحب کی پہلی تقریر سنی۔ بات بھول بھال گئے لیکن سید منور حسن سے براہ راست ملاقاتیں اور مجلسیں صحافت میں آنے کے بعد ہوئیں اور اتنی ہوئیں کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ ساتھ جاری ہے۔ ان ہی دنوں میں جب ہم جسارت اور حلقہ صحافت اسلامی سے وابستہ تھے تو روز ادارہ نور حق یا اکیڈمی پہنچ جاتے ایک روز منور صاحب نے کہا کہ کاظم علی صاحب علیل ہیں ان سے ملنے کارڈیو چلنا ہے۔ ہم دوپہر کو اسپتال پہنچے تو معلوم ہوا کہ کاظم صاحب تھوڑی دیر قبل گھر چلے گئے ہیں۔ ہم نے کہا کہ لیجیے اتنی محنت ضائع ہوگئی۔ منور صاحب مسکرائے اور کہنے لگے ارے… یہ کیا کہ دیا تم نے… ہم کاظم صاحب کو اپنی شکل دکھانے یا ان کی شکل دیکھنے تھوڑی آئے تھے۔ اللہ کے نبی کا حکم ہے مریض کی عیادت کرو… ہم اس لیے گئے تھے۔ اللہ کے نبی کے حکم پر عمل کیا کاظم صاحب مل جاتے وہ خوش ہوجاتے اور ہماری کوشش مقبول ہوتی۔ کوشش تو اب بھی مقبول ہوئی ہے اللہ کے ہاں تو لکھی گئی تو کوئی کوشش ضائع نہیں ہوتی۔ اور ان ہی باتوں میں ہم ادارہ نور حق پہنچ گئے۔ غالباً یہ پہلا سبق تھا۔ سید منور حسن کے ساتھ بہت سے امور پر گفتگو ہوتی تھی۔ نیا ناظم اعلیٰ کون آرہا ہے؟ کراچی کو کیا چیلنجز درپیش ہیں مقابلے کے کیا طریقے ہوسکتے ہیں۔ اچھا یہ بتائو صحافی کو غیر جانبدار ہونا چاہیے یا نہیں… جب ان سے کہا کہ صحافی کو تو غیر جانبدار ہی ہونا چاہیے اس پر منور صاحب نے کہا تمہارا مسئلہ یہ ہے کہ تم پہلے مسلمان ہو… اچھے خاصے جماعتی ہو تو پھر تم غیر جانبدار کیسے رہو گے… پھر خود گویا ہوئے… صحافت ایک مقدس کام ہے مجھے خوشی ہے کہ تم جیسے نوجوان شعوری طور پر اس میدان میں آئے۔ جب ہم پہلے مسلمان ہیں تو جانبدار ہوگئے۔ مسلمانوں کی جانبداری نہیں ہم اسلام کے جانبدار ہیں مسلمان تو انسان ہیں صحیح یا غلط کچھ بھی ہوسکتے ہیں لیکن اسلام تو ایک ہی ہے اور بحیثیت مسلمان ہم اس کے جانبدار ہیں۔
جب ہمارا رکن بننے کا وقت آیا تو عبدالرشید صاحب سے ملنے کو کہا۔ عبدالرشید صاحب نے رکنیت فارم سامنے رکھا اور چند سوالات کیے پھر کچھ تبدیلیاں کروائیں اور کہا کہ آپ نے لکھا ٹھیک تھا ارادے اور عزائم یہی ہونے چاہییں لیکن یہ رکنیت کے فارم میں نہیں لکھتے۔ یہ منور صاحب نے پوائنٹ آئوٹ کرکے میری ذمے داری لگائی ہے کہ اصلاح کرادوں۔ یوں سید صاحب کے ہاتھوں رکنیت مل گئی۔ منور صاحب کشمکش کے آدمی تھے جب تکبیر نکلا اور جماعت اسلامی کے خلاف مہم چل رہی تھی تو ہم نے بھی دو تین کالم لکھ ڈالے۔ بہت سے لوگوں کو یہ صلاح الدین صاحب کے ساتھ بدتہذیبی لگی۔ لیکن ہم اسلام کے جانبدار بن چکے تھے۔ لہٰذا لکھ ڈالا۔ اس وقت تو بہت سے احباب نے برا منایا لیکن بعد میں اور اب تو سب کو یقین ہوگیا ہے کہ وہ سارا سلسلہ کیا تھا۔ منور صاحب کے ساتھ چند ایک سفر بھی کیے ہیں۔ 1987ء میں جب قاضی حسین احمد کارروانِ دعوت ومحبت لے کر کراچی پہنچے تو ہمارے پاس موٹر سائیکل بھی نہیں تھی۔ ادارے سے گاڑی میں لانڈھی پہنچے وہاں قاضی صاحب کی گاڑی کے پائیدان پر کھڑے ہو کر ہجوم کا جائزہ لے رہے تھے کہ اندر سے ایک ہاتھ کندھے پر آیا اور کہا کہ آپ کے پاس سواری ہے؟ ہم نے دیکھا منور صاحب ہیں۔ ہم نے کہا نہیں… کہنے لگے اس گاڑی میں جگہ ہے اب آپ ساتھ ہی رہیں اور اس روز قاضی صاحب کی گاڑی ہی میں شہر کا چکر لگایا۔ لیکن سید منور حسن کے ساتھ جو سفر جدہ سے مکہ مکرمہ اور وہاں سے مدینہ منورہ کا کیا اس کے بارے میں منور صاحب نے بارہا کہا کہ سفر ہو تو ایسا۔ احرام والے سفر کی کیا بات ہے!!!
جب ہم نے اردو نیوز اختیار کیا اور ابھی جدہ نہیں گئے تھے۔ محترم مجیب الرحمن شامی کا ایک مضمون اردو نیوز کے لیے جارہا تھا اتفاق سے اسے پڑھ لیا۔ اس وقت شامی صاحب نواز شریف کے سحر میں مبتلا تھے۔ انہوں نے روانی میں نواز شریف کو پاکستان کا نجم الدین اربکان لکھ دیا۔ ہم نے اس کا حوالہ دیے بغیر ایک کالم لکھا جس میں اربکان اور نواز شریف کا موازنہ کیا۔ بات آئی گئی ہوگئی لیکن ایک ہفتے کے بعد صبح 11 بجے منور صاحب کا فون آیا۔ آج ملاقات ہوسکتی ہے۔؟ ہم نے کہا جی حاضر… دوپہر کو پہنچ گئے ان کے سامنے اردو نیوز پڑا ہوا تھا ہمارا مضمون نکالا اور کہا کہ یہ لکھنے کا کیا سبب تھا؟ ہم نے بتادیا کہ جناب شامی صاحب کے مضمون میں غلو بھی غلو کی حدود سے زیادہ تھا۔ پھر انہوں نے دوسری طرف کا صفحہ دکھایا کہ یہ ان کا مضمون ہے۔ مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ احترام کا رشتہ برقرار رکھتے ہوئے تم نے ایک ایک نکتے کا جواب دیا ہے۔ کیونکہ شامی صاحب کی بہت قربانیاں ہیں۔ پھر اس مضمون کا حوالہ کئی نشستوں میں دیتے رہے۔ پھر ہم جدہ چلے گئے۔ وہاں بھی پاکستان میں جماعت اسلامی کے ایک ہی فرد سے خط کتابت رہی اور وہ منور حسن تھے۔ وہ جدہ آئے تو حرمین کے سفر میں ساتھ رہے جس کا حوالہ دیتے تھے۔ واپسی پر ہم نے ان کے ساتھ ناشتے کی نشست رکھی اور اس نشست میں جدہ جیسے شہر کے 35 صحافی شریک ہوئے۔ ان میں عرب نیوز، سعودی گزٹ، ریڈیو جدہ اور اردو نیوز کے علاوہ بھی مختلف نیوز ایجنسیوں کے لوگ تھے۔
(جاری ہے)