سید منور حسن۔۔ مردِ حق آگاہ

864

روشن چہرہ، اجلا لباس، لہجے سے عیاں ارادے کی پختگی، سادگی، حلم، ایثار، وسیع النظر وظرف، پاکیزہ اطوار، سراپا اخلاص، مجسم عجزو انکسار، یہ تھے سید منور حسن۔
ملک میں اسلامی نظام کا قیام تو انہوں نے بھی اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا، مدینے کی اسلامی ریاست بھی ان کا خواب ہی ٹھیری۔ جو نعرے وہ جوانی بھر لگاتے رہے ’’انقلاب انقلاب، اسلامی انقلاب‘‘ ان کے نعروں سے کون سا انقلاب آگیا؟ ۔۔۔ لیکن جو جوانی بھر نعرے لگاتا رہا، اپنے سینے کو اسلامی انقلاب کی امنگوں سے سجائے رہا، اپنی 50 برس کی شعوری زندگی اس نے ایک مشن کو دے دی، کیا وہ اس جیسا ہو سکتا ہے جس نے نہ کبھی اسلامی انقلاب کا خواب دیکھا، نہ نعرہ لگایا، نہ اپنی راتیں اس کے لیے قربان کیں نہ دن کا چین، نہ کوئی عملی جدوجہد کی اس لیے کہ… لوگوں کی مستحکم رائے ہے کہ اس ملک پہ مافیاؤں کا راج ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کچھ ہونے نہیں دے گی۔ یہاں امریکا بہادر کی مرضی چلتی ہے۔ یہ سب مہرے ہیں جن کو امریکا الٹ پلٹ کرتا رہتا ہے۔ اپنا گھر، بچے، روٹی پانی، یوٹیلٹی بلز، انکم ٹیکس، بڑھتی ہوئی مہنگائی، گرتی ہوئی صحت، شوگر، بلڈ پریشر، ان غموں سے نجات پائیں تو یہ سوچیں کہ اقامت دین بھی ذمے داری تھی۔ مسلمان ہونا شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا تھا۔ نماز روزہ کرلیں، گناہوں سے بچ جائیں یہی بہت ہے اس زمانے میں۔
مہدی موعود آنے ہی والے ہیں۔ فکر کی کوئی بات نہیں۔ جو اللہ چاہتا ہے وہی ہوتا ہے۔ جب اللہ چاہے گا سب ٹھیک ہو جائے گا۔ لاکھوں زندگیاں مذکورہ راگ الاپتے الاپتے ہی گزر گئیں اور اب بھی اکثریت حالات کا رونا روتی ہے اور مہدی موعود کا انتظار کرتی ہے۔ جاتے جاتے سیّدی فضاؤں میں زندہ پیغام چھوڑ کر گئے کہ ہوگا وہی جو اللہ چاہے گا۔ بس تم اپنے حصہ کاکام کرجانا۔ میں نے جو مشن اپنایا زندگی لگادی۔ ایک سید منور حسن ہی نہیں سید مودودیؒ نے اسلامی نظام کے قیام کے لیے اصلاح معاشرہ کے جس عظیم مشن کا بیڑہ اٹھایا اس نے اپنے وقت کے ہزاروں نوجوانوں کی زندگیاں بدل دیں اور ان کو ایک مشن دے دیا وہ پرانی بے مقصد زندگی کو چھوڑ کر یوں نئے سفر پر روانہ ہوئے کہ واپسی کی ساری کشتیاں جلا دیں۔ میرے کارواں نے اہل کارواں کے دلوں میں ایک عظیم انقلاب کا عزم پیدا کر دیا ان کی جوانیوں میں ایسی حرارت بھردی کہ اقامت دین کی دعوت انکا فکروفلسفہ بن گئی۔
جماعت اسلامی کی اٹھان سیاسی جماعت کے بجائے نظریاتی تحریک کے طور پر ہوئی تھی۔ نظریہ زندگی ہوتا ہے، زندگی کو متحرک رکھتا ہے۔ سوچو بھلا۔۔۔ اور کس کام آنی تھی یہ زندگی۔ بات اتنی سی ہے کہ اللہ کو ہم سے نتائج مطلوب نہیں ہیں۔ ہم بس اپنے حصے کا کام کر جائیں۔ اگر کوئی کہتا ہے کہ جماعت اسلامی کو تہتر برس میں کون سی حکومت ملی؟ جماعت اسلامی کا ووٹ بینک کتنا ہے؟ اگر آپ کا پیغام برحق ہے تو لوگ آپ کو منتخب کیوں نہیں کرتے؟ عوام جمہوری سوچ رکھتے ہیں۔ وہ مذہبی جماعتوں اور ملا کو مسترد کرتے ہیں۔ یہ بھی طرفہ تماشا ٹھیرا کہ لوگ حق اور سچ کو ووٹوں سے ناپتے ہیں۔ روز حشر ہزاروں پیغمبر ہوں گے جن کی دعوت کو بہت شقاوت سے رد کیا گیا۔ کچھ کو قتل کیا گیا، کتنوں کو سولی پر چڑھا گیا۔ کیا معاذ اللہ پیغمبر ناکام ہیں یا ان کی دعوت کو رد کرنے والے؟، جماعت اسلامی کی دعوت پر یہ اعتراض کافی سمجھا جاتا ہے سن 70 میں چار سیٹیں ملی تھیں اب تو وہ بھی نہیں ملیں۔۔ تو اللہ کے ہاں حساب اپنا انفرادی دینا ہے۔
منور حسن مرحوم مغفور سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ جماعت کو لوگوں نے ووٹ کیوں نہیں دیے؟ یہ سوال وہاں ان لوگوں سے ہوگا جو دیانت دار نمائندے ہوتے ہوئے اپنی ذات، برادری، قبیلہ، مفاد کو مدنظر رکھتے تھے۔ اکر بروز حشر لوگوں سے یہ سوال پوچھ لیا گیا کہ دفعہ 62،63 پر پورے اترنے والے نمائندگان تمہارے درمیان موجود تھے جن کی حق گوئی و بے باکی اور سادگی ودرویشی، پاکباز زندگی کھلی کتاب کی طرح تمہارے سامنے تھی۔ تم نے ان کو کیوں مسترد کیا؟؟ ان کو منتخب کیا جن کی کرپشن پر دہائی دیتے تمہاری عمر تمام ہوئی۔۔۔ منور صاحب سے سوال نہیں ہوگا کہ آپ کو اقتدار کیوں نہیں ملا،؟؟ فلاں الیکشن میں قومی اسمبلی کی سیٹ پر کامیاب کیوں نہ ہوسکے؟ اس کا جواب ان کے نہیں اوروں کے ذمہ ٹھیرا۔ ان جیسوں کے لیے تو حکیم الامت نے فرمایا تھا۔
اس کی امیدیں قلیل اس کے مقاصد جلیل
ہر دو جہاں سے غنی اس کا دل بے نیاز
وہ جلیل مقاصد کے لیے نصف صدی سی زیادہ ان تھک جدوجہد کر گئے انہوں نے دنیا اور اسباب دنیا سے قلیل امیدیں رکھیں۔ اپنی شعوری زندگی کی ابتدا بھی جماعت اسلامی سے کی اور آخری سانس تک اسی مشن سے جڑے رہے۔ جب جہاد کا علم اٹھانا ہی نہیں مجاہدین سے اظہار ہمدردی بھی جرم سمجھا جاتا تھا۔ جہادی تحریکوں سے وابستگی پر سر کی قیمت لگ جاتی تھی۔ وہ اس وقت حکیم اللہ محسود کو شہید کہتے ہیں، اس وقت حزب المجاہدین، طالبان، حماس کے ساتھ کھل کر یگانگت کا اظہار کرتے ہیں۔ جب درسی کتابوں سے جہادی آیات نکالی جارہی تھیں۔ سچ بات یہ ہے کہ وہ اپنے دور کے گناہوں کا کفارہ تھے۔ سوال تو ہم سے بھی ہونا ہے کہ مسلمان ہونے کا کتنا حق ادا کیا۔ کیا کامیابی کا تصور تم بھی اتنا ہی رکھتے تھے جتنا کوئی ہندو، سکھ، پارسی وغیرہ کامیاب ہوں گے اپنا نامہ اعمال دکھا کے۔۔۔
لوگ سمجھتے ہیں کہ بدلا تو کچھ نہیں۔ اس جدوجہد کے نتیجے میں ہاتھ کیا آیا؟؟ ایک مسلمان کے لیے اس سے بڑی کامیابی کیا ہے کہ وہ رب کے پاس اپنا شکستہ وجود لے کر حاضر ہو کہ یہ پیر ہیں جو خاک آلود ہیں، یہ جسم ہے جو گھلا ہے اس راستے میں، یہ آنکھیں لایا ہوں جنہوں نے تمام عمر اسلامی انقلاب کا خواب دیکھا۔۔۔ طول وعرض کی مٹی گواہ ہے جہاں خاک چھانی۔ تیری کبریائی کا پیغام لے کر گیا۔۔ یہ شکستہ دل ہے جو مضطرب ہی رہا یہ پیشانی سجدوں میں کیا مانگتی تھی مولا تو جانتا ہے جو لطیف وخبیر ہے۔ اس جدوجہد کی کامیابی کے لیے جو بن سکا آخری سانس تک قرض ادا کرکے آیا ہوں۔۔ تو اصل چیز یہی فوز عظیم ہے۔ دنیا میں اپنے مشن پر ڈٹے رہنا اور سب کچھ لگا دینا۔