مائنس پلس اور خان صاحب کی دھمکی

942

پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے کہا ہے کہ مجھے مائنس کروانے والے بھی نہیںبچیں گے ۔ بجٹ سے ایک رات پہلے ایسا لگتا تھا کہ حکومت گئی ۔ کبھی نہیں کہا کہ میری کرسی مضبوط ہے ۔ آج نہیں تو کل جانا ہے نظریہ نہیں چھوڑنا، لبرل لوگ کرپٹ ہیں۔ وزیر اعظم کے طور پر کسی بھی لیڈر کو یہ بات زیب نہیں دیتی کہ وہ ملکی مسائل کے بارے میں رننگ کمنٹری کرتا رہے ۔ عمران خان نے یہی کام کیا ہے کہتے ہیں کہ پاور سیکٹر ملک کے لیے عذاب بنا ہوا ہے ۔ اداروں میں مافیاز بیٹھے ہوئے ہیں ۔ جن صاحب کے یہ فرمودات ہیں انہیں بھی مختلف لوگ بتاتے ہیں کہ وہ وزیر اعظم ہیں اور دعویٰ بھی یہی کرتے ہیں لیکن جس قسم کی باتیں وہ کرنے لگے ہیں ایسی تو فواد چودھری بھی نہیں کرتے۔اگرچہ عمران خان نے یہ نہیں کہا کہ میری کرسی مضبوط ہے لیکن جو کچھ کہا ہے اس کا مطلب بھی یہی ہے ۔ کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ مجھے مائنس کروانے والے بھی نہیں بچیں گے ۔ اس ایک جملے میں وہ کئی باتیں کہہ گئے ہیں ایک تو یہ کہ انہیں مائنس ہونے کا خطرہ ہے اور اس کا پیغام بھی مل گیا ہے ۔دوسری بات اہم ہے کہ مائنس کروانے والے بھی نہیںبچیں گے ۔ تو یہ کون لوگ ہیں جو مائنس کروارہے ہیں ۔ عمران خان صاحب آپ کو جس نے پلس کروایا وہی مائنس کروا رہا ہے اس کو دھمکی دینا سمجھ سے بالا تر ہے ۔ ان دونوں باتوں کا مطلب یہی نکلتا ہے کہ کرسی مضبوط ہے ۔ ایک اور جگہ یہ بات اس طرح چھپی ہے کہ مائنس ہو بھی جائوں تو تمہاری جان نہیں چھوٹے گی ۔ یہ کون ہے جس کو عمران خان دھمکی دے رہے ہیں ۔ یہ بھی مائنس ہونے کی بات ہی ہے ۔وزیر اعظم عمران خان نے یہ بتایا ہے کہ بجٹ سے ایک رات پہلے ایسا لگتا تھا کہ حکومت گئی ۔ انہیں اس کی وضاحت کرنی چاہے تھی گنتی پوری ہے ۔ اتحادی ساتھ ہیں ۔ بلکہ اتحادی تو ایسے ساتھ نبھا رہے ہیں کہ پہلے بجٹ منظور کرواتے ہیں پھر اپوزیشن کے پاس چلے جاتے ہیں ۔ لیکن عمران خان کو یہ تو بتانا چاہیے کہ انہیں مائنس کروانے والے کون لوگ ہیں ۔ ایسا لگتا ہے کہ بہت تیزی سے وہ مائنس ہونے جا رہے ہیں ۔ جس تیزی سے وہ پلس کیے گئے ہیں اس سے کہیں زیادہ تیز رفتاری سے وہ مائنس ہو رہے ہیں ۔ جس طرح پاکستان کا کوئی مہرہ حکمران نہیں بتا سکا کہ مجھے کون لا رہا اور کون نکال رہا ہے ۔اسی طرح عمران خان بھی اس کھلے راز سے پردہ نہیں اُٹھا سکیں گے ۔ حالانکہ عمران خان ان کی ٹیم اور پاک فوج کے ترجمان نے بہت واضح اور کھلم کھلا طریقے سے سب کچھ بتا دیا تھا کہ کون کسے لایا۔ پھر بھی چلتے چلتے وزیر اعظم کی حیثیت سے عمران خان کو یہ زیب نہیں دیتا کہ یہ بات صرف کہنے کی حد تک کہیں کہ پاور سیکٹر ملک کے لیے عذاب بنا ہوا ہے ۔ اس عذاب کو آپ ہی نے تو طاقت ور بنایا ہے ۔ پیٹرول مافیا کو لائسنس ضبط کرنے اور جیل میں بند کرنے کا حکم دینے کے بعد25روپے لیٹر کا فائدہ دے دیا، چینی مافیا ان کے ارد گرد ہے ۔ گندم مافیا ان کے ساتھیوں میں ہے ۔ پھر وہ یہ کیوں کہہ رہے ہیں کہ اداروں میں مافیاز بیٹھے ہیں ۔ سارے ادارے تو ان کے ما تحت ہیں یا ا ن کے آقائوں کے۔ عمران خان نے ایک بڑی عجیب بات کہی ہے کہ نظریہ نہیں چھوڑوں گا ۔ لبرل لوگ کرپٹ ہیں ۔ خان صاحب ذرا بتا دیں کون سا نظریہ ،کہاں کا نظریہ ان کے پاس ہے ۔ کشمیر گنوانے کا نظریہ ۔ قادیانیوں کی سر پرستی کا نظریہ ، سودی نظام کا نظریہ ، اسلام کو بدنام کرنے کا نظریہ۔ کون سا نظریہ ہے ان کے پاس ۔ اور ہاں یہ خوب کہا کہ لبرل لوگ کرپٹ ہیں ۔ اس بات سے اتفاق کیا جا سکتا ہے ۔ لیکن خان صاحب ذرا دائیں طرف دیکھیں جہانگیر ترین ، اسد عمر، پرویز خٹک وغیرہ نظر آئیں گے ۔ یہ سب لبرل ہیں ۔ اور بائیں طرف تو دیکھیں بھی نہیں وہاں زیادہ لبرل فواد چودھری ، فردوس عاشق ، مراد سعید ،شیریں مزاری ، شیخ رشید ، حماد اظہر ، خرم بختیار اور سارے ہی لبرل موجود ہیں پھر بھی وہ کہہ رہے ہیں کہ لبرل کرپٹ ہوتے ہیں ۔ ادارے ان کے ما تحت ، وہاں مافیاز بیٹھے ہیں لبرل کرپٹ ہوتے ہیں ۔ ان کے درمیان بیٹھے ہیں اور خان صاحب کے پیچھے جو لوگ ہیں ان سے بڑا لبرل تو کوئی ہے نہیں ۔ یہ بات بھی بالکل ٹھیک ہے کہ مائنس ہونے کے بعد بھی جان نہیں چھوٹے گی ۔ کیونکہ اس کچرے میں سے کچھ نکال کر لایا جائے گا ۔ تو قوم کی جان تو ہرگز نہیں چھوٹے گی ۔