غلام سرور فضائی صنعت کو لے ڈوبے

832

اندیشوں کے عین مطابق وفاقی وزیر ہوابازی غلام سرور خان کا پارلیمنٹ میں پائلٹوں کے جعلی لائسنس کے حوالے سے دیا گیا بیان رنگ لے آیا ہے اور یورپی یونین و برطانیہ میں نہ صرف پی آئی اے کے داخلے بلکہ اس کی اوورفلائنگ پر بھی پابندی عاید کردی گئی ہے ۔ متحدہ عرب امارات نے پاکستان کی سول ایوی ایشن اتھارٹی سے امارات کی فضائی کمپنیوں میں ملازمت کرنے والے پائلٹوں اور دیگر عملے کی اسناد کے حوالے سے وضاحت طلب کرلی ہے ۔بات صرف اتنی نہیں ہے کہ غلام سرور خان نے جن کا اپنا ڈپلومامشکوک ہے ، پارلیمنٹ میں ایک احمقانہ بیان دے دیا ۔ اصولی طور پر تو اس بیان پر خود غلام سرور خان کو مستعفی ہوجانا چاہیے تھا کہ وہ پائلٹوں کو لائسنس جاری کرنے والے ادارے کے وزیر ہیں اور یہ ساری ذمہ داری ان ہی کی ہے ۔ غلام سرور خان کو پی آئی اے کے طیارے کے کراچی میں کریش ہونے پر بھی مستعفی ہوجانا چاہیے تھا کہ غلطی چاہے پی آئی اے کی ہو یا سول ایوی ایشن اتھارٹی کی وہی ان اداروں کے وزیر ہیں ۔ غلام سرور خان نے جو بیان دیا ہے اور اس کے جو نتائج نکل رہے ہیں ، وہ بالکل وہی ہیں جو پاکستان اسٹیل کو قدرتی گیس کی بندش سے نکلے تھے ۔ پی آئی اے صرف ایک فضائی کمپنی نہیں ہے بلکہ یہ ملک کا ایک اسٹریٹیجک اثاثہ ہے ۔جس طرح پہلے پاکستان اسٹیل کے اسٹرٹیجک اثاثے کو نجکاری کے ذریعے ٹھکانے لگانے اور پاکستان کو اس اہم ترین اثاثے سے محروم کرنے کی کوشش کی گئی اور پھر ناکامی پر اس اہم ترین ادارے کو گیس کی بندش کے مجرمانہ اقدام کے ذریعے کباڑمیں تبدیل کردیا گیا ،بالکل یہی مجرمانہ قدم پی آئی اے کے خلاف اٹھایا گیا ہے ۔ جب پی آئی اے پر پوری دنیا میں پابندی لگ جائے گی تو بالآخر پی آئی اے کے جہازوں کا وہی حال ہوگا جو پاکستان اسٹیل کی بلاسٹ فرنیس کا ہوا ہے اور پھر پی آئی اے کے قیمتی اثاثے سب گِدھوں کی طرح بیچ کر کھا جائیں گے ۔ اصل نقصان پاکستانی قوم کا ہوگا جو یکے بعد دیگرے اپنے قیمتی اسٹرٹیجک اثاثو ں سے محروم کی جارہی ہے ۔ جس طرح پاکستان اب غیرملکی اسٹیل کی مصنوعات کا ڈمپنگ گراؤنڈ بن چکا ہے ، بالکل اسی طرح پاکستان کی فضائی مارکیٹ غیر ملکی فضائی کمپنیوں کے چنگل میں جاچکی ہوگی ۔ بات محض اتنی نہیں ہے کہ پاکستان کی فضائی مارکیٹ پر غیرملکی فضائی کمپنیوں کا قبضہ ہوگا یا پھر روزویلٹ ہوٹل اور پی آئی اے کے روٹ فروخت کیے جاچکے ہوں گے ، بات اس سے بھی بڑھ کر یہ ہے کہ زمانہ امن میں پاکستان کے صدر ، وزیر اعظم اور آرمی چیف غیرملکی فضائی کمپنیاں استعمال کرنے پر مجبور ہوں گے اور ان کی آمدورفت سے پوری دنیا آگاہ ہوگی جو کہ ان کی اپنی سلامتی کے لیے خطرہ ہے ۔ زمانہ جنگ میں پی آئی اے اپنی اہمیت و صلاحیت سے بہت پہلے آگاہ کرچکی ہے ۔ سوال یہ ہے کہ ان سب حقائق کے باوجود کس طرح سے پہلے پاکستان اسٹیل جیسے ادارے کو جو ملکی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی ہے اور اب پی آئی اے جو قومی سلامتی کے ادارے جتنی اہمیت کا حامل ہے ، کو تباہ کرنے کی سازش کامیاب ہونے دی گئی ۔ اس سازش کے کرداروں کو کیوں کر یہ آزادی دی گئی کہ وہ ملک کی سلامتی کے ساتھ کھیلیں ۔ ان اہم ترین اداروں کو تباہ کرنے والے ملک کی سلامتی کے لیے اتنے ہی خطرناک ہیں ، جتنے دہشت گردانہ حملوںمیں ملوث لوگ ۔ حیرت انگیز طور پر دہشت گردی کے حملوں میں ملوث افراد کو تو عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کیا جاتا ہے مگر ملک کی بنیادوں پر وار کرنے والوں کو وزارت کی مسند پر بٹھایا جاتا ہے ۔ کیا غلام سرور خان بھی عمران خان کے نقش قدم پر چل کر تباہی پھیلانے کا ایجنڈا لے کر آئے ہیں ؟