جماعت اسلامی اور شہری مسائل

533

شہر کراچی ملک کا معاشی حب و عروس البلاد جس کی تاریخ ہمیشہ ملکی تاریخ بناتی رہی۔ یہ شہر حریت پسندوں، دینی غیرت و جمہوری روایتوں کا شہر رہا ہے اس شہر کی تاریخ ایک درخشندہ و تابندہ پہلو رکھتی ہے۔ سیاسی شعور کی بالادستی کے لیے یہ شہر پورے ملک کی سیاسی رہنمائی کا مرکز رہا ہے۔ ایوب دور کی جمہوری تحریک ہو، 1977ء کی تحریک نظام مصطفیؐ ہو، ختم نبوتؐ و دیگر مذہبی و سیاسی تحریکوں کا مرکز رہا ہے۔ یہ وہ شہر ہے جس نے پورے ملک کی نمائندگی کی ہے، اس شہر میں ملک کے چاروں صوبوں کا رنگ و ثقافت جھلکتا ہے۔ یہ ملکی یکجہتی و قومی اتحاد کا قابل رشک شہر تھا نجانے کس کی نظر اس شہر کو کھا گئی جو آج ماضی کی تاریخ کا ماتم کدہ بنا ہوا ہے۔ آج یہ مختلف مافیاز کا شکار ہے۔ تعصب، محرومی و سازشوں کا گڑھ ہے، کرپشن زدہ سیاست نے اس شہر کو اُجاڑ دیا ہے۔ آج یہ مسائلستان بنا ہوا ہے، سیاسی، مذہبی، جمہوری و عوامی نمائندے خواہ کسی پارٹی کے ہوں بے حسی و لاتعلقی کا شکار ہیں۔ عوام پریشان حال ہیں کسی مسیحا کے منتظر ہیں۔ ان حالات میں جماعت اسلامی نے مایوسی کے اس ماحول میں ہمت و جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے شہر کے مسائل کے حل کے لیے آواز اُٹھانے کا آغاز کیا ہے جس سے شہریوں کو اُمید کی کرن نظر آئی ہے کہ اس حبس زدہ ماحول میں کوئی تازہ ہوا کا جھونکا آیا ہے۔ اگرچہ یہ آواز تنہا ہے لیکن اس آواز میں کراچی کے شہریوں کا درد اور شہر سے خلوص موجود ہے یہ آواز بھرپور و توانا ہے جو شہر کی دوسری سیاسی، مذہبی و سماجی تنظیموں کے لیے ایک روشن مثال ہے کہ وہ بھی اس آواز میں آواز ملا کر کراچی کا حق ادا کریں۔ یہ آواز جماعت اسلامی کے حافظ نعیم الرحمن کی آواز ہے۔ حافظ صاحب محض جماعت اسلامی ہی کے رہنما نہیں بلکہ وہ کراچی کے بیٹے ہیں، کراچی کے مرحوم بابائے کراچی نعمت اللہ خان کے کردار کے حقیقی ترجمان ہیں۔ وہ کراچی کے لیے میدان عمل میں آئے ہیں، وہ سادگی و خوش مزاجی کا مرقعّ ہیں، ہر قسم کے سیاسی و مذہبی تعصب سے مبرا درویش صفت انسان ہیں۔ راقم الحروف کو اپنی تازہ کتاب ’’کھلے دریچے‘‘ کے سلسلے میں ان سے ملاقات و گفتگو کا موقع ملا بغیر کسی وقت کا تعین کیے میں نے انہیں فون کیا اور خواہش ظاہر کی کہ میں کتاب بالمشافہ دینے کی خواہش رکھتا ہوں۔ توقع کررہا تھا کہ وہ سیاسی و تنظیمی طور پر مصروف ہوں گے اور مصروفیت کے حوالے سے کسی دن کا تعین کریں گے لیکن خوشگوار حیرت ہوئی جب انہوں نے فوری جواب دیا کہ کل آجائیں۔ گفتگو کا موقع ملا تو انہوں نے حوصلہ افزائی کی اور دوران گفتگو کراچی کے مسائل خصوصاً کے الیکٹرک کے رویہ کے خلاف حافظ صاحب کی جدوجہد کا ذکر ہوا تو انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی بلاتفریق کراچی کے ہر مسئلے پر آواز اُٹھاتی ہے لیکن بعض مسائل سیاسی ہیں وہ سیاسی، سماجی و دیگر تنظیموں و نمائندوں کے باہمی اتحاد ہی سے حل ہوسکتے ہیں۔
آج بھی ایک مرتبہ پھر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن جیسے نڈر، بے خوف، جرأت مند رہنما کی قیادت میں بجلی کی لوڈشیڈنگ، اوور بلنگ جیسے مسائل پر کے الیکٹرک کے ظالمانہ رویہ کے خلاف میدان عمل میں موجود ہے اور کراچی کا حق ادا کرنے کے لیے آواز بلند کررہے ہیں۔ تو ضرورت ہے کہ کراچی کی سیاست دعویدار بھی شہریوں کی نمائندگی کا حق ادا کریں اور جماعت اسلامی کی حالیہ مہم میں اس کا بھرپور ساتھ دیں۔ اس سلسلے میں میری تجویز ہے کہ کراچی کی تمام سیاسی، مذہبی، سماجی و سول سوسائٹی اپنے تمام اختلافات و باہمی تنازعات بالائے طاق رکھ کر کراچی کے مسائل خصوصاً سرفہرست کے الیکٹرک کے ظالمانہ رویہ، پانی کی قلت، صفائی، پٹرول کی قلت و مختلف مافیاز کی جانب سے ضرورت کی اشیا کی مصنوعی قلت و مہنگائی، لوٹ مار کے خلاف ایک متحدہ شہری ایکشن کمیٹی کا قیام عمل میں لایا جائے جس کے لیے جماعت اسلامی آل پارٹیز کانفرنس بلا کر اس کو عملی شکل دے تا کہ شہر کے مسائل و رونقیں بحال ہوسکیں۔