اسٹیل ملزکے بعد قومی عجائب گھر بھی نشانے پر

463

سلمان علی

پاکستان سے محبت کرنے والا ہر دردمند دل یقیناً آج پاکستان اسٹیل مل، ریلوے، پی آئی اے و دیگر سرکاری اداروں کی حالتِ زار پر افسوس کررہا ہوگا۔ میں قطعاً ماضی کی حکومتوں کی تعریف نہیں کررہا، ان کی کرپشن، لوٹ مار اور نااہلی اپنی جگہ، مگر موجودہ حکومت کے دعووں سے عوام کو جس قسم کی جو بھی توقعات تھیں پانچ سال تو دور کی بات انہوں نے ہر ہر محاذ پر بائیس ماہ میں اپنی نااہلی ثابت کردی ہے۔ کل بھی میں وزیراعظم پاکستان عمران خان کی ایک گفتگو دیکھ رہا تھا جس میں وہ بتا رہے تھے کہ ’’پاکستانی عوام اللہ سے بڑا تعلق اور آخرت پر ایمان رکھتے ہیں، اس لیے ہمیشہ اپنا مال دل کھول کر خرچ کرتے ہیں‘‘۔ جی ہاں یہ اِن ہاؤس گفتگو تھی، کسی جلسے کی تقریر نہیں۔ اب ایک جانب یقین ہی نہیں آتا کہ یہ وزیراعظم کی گفتگو ہے، دوسری جانب حکومتی اقدامات بالکل اُلٹی داستان سنارہے ہوتے ہیں۔ بڑے بڑے دعووں کے باوجود پاکستان اسٹیل کو دو سال کا عرصہ لگا کر ٹس سے مس نہ کرسکے، اُلٹا ملازمین کو بغیر کسی ٹھوس پالیسی کے یک جنبش قلم فارغ کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ باقی اداروں کا بھی ایسا ہی کچھ حال ہے۔ پیٹرول کی قیمتیںکم ہوئے 23 دن ہوگئے لیکن آج بھی خبروں میں عوام کے لیے پیٹرول کی قلت اہم خبر ہے۔ چینی کے کتنے کمیشن بن گئے مگر دکان پر چینی 85روپے کلو سے کم دستیاب نہیں۔ آٹا 60 روپے کلو فروخت ہورہا ہے۔
بہرحال مزید پرانی باتوں پر دل جلانا مقصود نہیں، اب کچھ نئی داستان سنانی ہے۔ اس کا آغاز بھی وزیراعظم صاحب کے ایک مشہور مگر عملی قول کے حوالے سے کرتے ہیں جس میں اُنہوں نے تاریخ سے رشتہ مضبوط کرنے پر زور دیا، اور اس کے اعادے کے لیے عظیم ترک ڈراما سیریل ارتغرل کو پی ٹی وی پر نشر کرنے کا واحد عملی تاریخ ساز فیصلہ کیا۔ تاریخ سے رشتہ جوڑنا اور اُس سے سبق لینا ہر قوم کے لیے نہایت ضروری ہے۔ عین ممکن ہے کہ آپ کو زمانۂ طالب علمی میں اسکول کی جانب سے کراچی کے عجائب گھر کی سیر کرائی گئی ہو، کیونکہ کسی بھی ملک کے عجائب گھر وہاں کی تاریخ، تہذیب اور ثقافت کی عکاسی کرتے ہیں، جس سے نئی نسل کو روشناس کرانا نہایت ضروری ہے۔ یہاں انواع و اقسام کی تاریخی نایاب اشیااور نوادرات کا خزانہ ہے جو ہماری تاریخ سے رشتہ بھی جوڑتا ہے۔ قومی عجائب گھر کراچی کے برنس گارڈن میں تقریباً 25 ایکڑ کے وسیع رقبے پر1969ء سے قائم ہے، اور پتھر کے زمانے سے گندھارا تہذیب، موئن جو دڑو سے ہوتا ہوا یہ عجائب گھر بیش قیمت نوادرات کے ساتھ ہماری پوری ملکی تاریخ و ثقافت کا بھی آئینہ دار ہے۔
اب اس کا تھوڑا سا انتظامی پس منظر سمجھ لیں۔ 29 مارچ 2011ء کو وزارتِ ثقافت حکومتِ پاکستان کی جانب سے ایک اطلاعاتی خط محکمہ آرکیالوجی اور میوزیم کے ڈائریکٹر، اسلام آباد کے دفتر میں موصول ہوتا ہے۔ یہ خط بنیادی طور پر تمام صوبوں کے چیف سیکریٹریز کے نام تھا، لیکن عملی کام کرنے کے لیے ڈائریکٹر کو بھی کاپی بھیجی گئی تھی۔ خط میں اُنہیں بتایا گیا کہ وفاقی کابینہ کے فیصلے کی روشنی میں تمام صوبوں میں قائم آرکیالوجیکل سائٹس و عجائب گھروں کو مع ڈویلپمنٹ پروجیکٹس و اسٹاف صوبوں کے زیرانتظام/ حوالے کردیا جائے ماسوائے نیشنل میوزیم کراچی، فلیگ اسٹاف ہاؤس، وزیر مینشن، ٹیکسلا و اسلام آباد میوزیم۔ حیرت انگیز طور پر اس خط کے 6 دن بعد ہی یعنی 5 اپریل 2011ء کو اُسی وزارت سے ایک اور نوٹیفکیشن جاری ہوتا ہے جس میں مطلع کیا جاتا ہے کہ آئین میں ہونے والی اٹھارہویں ترمیم پر عمل درآمد کی غرض سے نیشنل میوزیم کراچی کو حکومتِ سندھ، محکمہ ثقافت و سیاحت کے پاس منتقل کردیا گیا ہے۔
مزے دار بات یہ ہوتی ہے کہ یہ عمل یا ادارہ (نیشنل میوزیم) اٹھارہویں ترمیم کے دائرے میں آتا ہی نہیں تھا، اس کے باوجود وفاق سے اُسے تمام ملازمین کے ہمراہ ڈیپوٹیشن کا لیٹر نکال کر منتقل کردیا گیا۔ اس کے بعد9 سال تک یہ ادارہ اور اس کے 100ملازمین غیر آئینی و غیر قانونی طریقے سے اپنے جائز حق کے لیے ترستے رہے ہیں۔ انہوں نے اس غیر آئینی عمل کے خلاف عدلیہ سے رجوع کیا اور کوئی 8 سال بعد17اپریل2019ء کو سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں نیشنل میوزیم کو صوبہ سندھ سے نکال کر واپس وفاق کے ماتحت کردیا گیا، جس کا باقاعدہ نوٹیفکیشن 31 جولائی2019ء کو جاری ہوا۔ چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے واضح طور پر اپنے فیصلے میں لکھا کہ جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر، قومی ادارہ برائے امراضِ قلب، قومی ادارہ برائے صحتِ اطفال اور نیشنل میوزیم کے معاملات میں وفاقی حکومت کی غائب دماغی نظر آتی ہے جس نے تمام قانونی طریقوں پر عمل نہیں کیا اور اٹھارہویں ترمیم کی غلط تشریح کی۔ عدلیہ نے واضح طور پر مذکورہ تمام اداروں کی صوبوںکو منتقلی غیر قانونی قرار دے کر اُنہیں وفاق کے حوالے کرنے کا حکم دیا۔
اب شروع ہوتی ہے اصل کہانی، کیونکہ اب تک تو موجودہ حکومت کا کوئی کارنامہ سامنے ہی نہیں آیا۔ 2011ء میں پیپلز پارٹی کی زرداری حکومت تھی، پھر نون لیگ نے ٹائم پاس کیا، یہ تاریخی فیصلہ تو تحریک انصاف کی حکومت میں آیا ہے۔ اب چلتے ہیں وفاقی وزیر مملکت شفقت محمود کے کارناموں کی جانب، جو ایک بار پھر غیر آئینی طرزعمل اختیار کرکے اپنے پست مفادات کی خاطر قومی اداروں کے ساتھ کھلواڑ کرنے پر تُلے ہیں۔
17اپریل2019ء کو قومی عجائب گھر صوبہ سندھ سے وفاق کے پاس منتقل ہوا، 25 اپریل 2019ء کو وفاقی وزیر برائے تعلیم، پروفیشنل ٹریننگ، نیشنل ہسٹری و لٹریری ہریٹیج شفقت محمود نے کراچی میں عجائب گھر کا اچانک دورہ کیا۔ اُن کے ہمراہ معروف متنازع دستاویزی فلم ڈائریکٹر شرمین عبید چنائے اور کچھ مزید افراد تھے۔ اِس دوران اُنہیں ادارے کے عملہ نے سندھ حکومت کے 9سالہ ’سوتیلے پن‘ کی داستان سنائی اور خراب حالتِ زار پر توجہ دینے کی استدعا کی۔ مگر ٹیم کی نظریں تو عجائب گھر سے متصل زمین کے وسیع ٹکڑے پر جمی تھیں، معاملہ کچھ اور ہی تھا۔ وزیر موصوف نے ایک عارضی مشاورتی کمیٹی بنانے کا اعلان 23 مئی 2019ء کو جاری فرما دیا، جس کا مقصد یہ بتایا کہ یہ ماہرین کی کمیٹی ہوگی جو اس قومی ورثے کی حفاظت و نسلوں میں منتقل کرنے والے اہم ادارے کی بہتری کے لیے کام کرے گی۔ اب اس اہم کمیٹی کے ارکان مع کنوینر کی تفصیل بھی دیکھ لیں۔

نمبر نام و عہدہ پیشہ
1 شرمین عبید چنائے۔ کنوینر فلم میکر
2 صوفیہ عمر ۔ ممبر ماہر تعلیم
3 ماروی مظہر۔ ممبر آرکی ٹیک
4 امین جے ۔ ممبر فوٹو گرافر
5 احسن نجمی ۔ ممبر آرکی ٹیک
6 زیاد بشیر۔ ممبر فلانتھروپسٹ
7 صوفیہ بلگم والا۔ ممبر مجسمہ ساز
8 خرم جمالی ۔ ممبر ٹیکنالوجی ایکسپرٹ
9 عدیل الظفر ۔ ممبر آرٹسٹ ، مجسمہ ساز
10 سارہ جمیل۔ ممبر گرافکس ڈیزائنر
11 ستار پیرزادہ ۔ ممبر وکیل
12 دانش لاکھانی۔ ممبر ٹیکنالوجی ایکسپرٹ
13 آرج ہاشمی ۔ ممبر ویژول اسٹوری ٹیلر
14 عارف بلگرامی۔ ممبر آرکی ٹیکٹ
15 سپرنٹنڈنٹ۔ نیشنل میوزیم پاکستان ۔ سیکریٹری

وزیر موصوف کی فوری ہدایت پر قائم کردہ کمیٹی کے دائرۂ کار یعنی TOR میں یہ بتایا گیا کہ : ’’قومی عجائب گھر کی اَپ گریڈیشن، تجدیدِ نو، عجائب گھر کی ڈیجیٹل انوینٹری بنانا، افسران و اسٹاف کی استعداد بڑھانا، تعلیمی و ثقافتی سرگرمیوں کا انعقاد، ان کاموں کے لیے مالی وسائل کے ذرائع کی نشاندہی کرنا۔‘‘
بظاہر تو کمیٹی کے شرکاء و کام کا دائرہ بہت بامقصد لگتا ہے، مگر یہ کام تو براہِ راست حکومت کا ہے جس کی وزارت کے ماتحت یہ ادارہ ہے، مگر جو لوگ پوری صورت حال دیکھ رہے ہیں وہ سمجھ سکتے ہیں کہ اس کے پیچھے بڑا کھیل کیا جارہا ہے۔ ملکی آثارِ قدیمہ، ثقافتی و تاریخی ورثہ کے حجم کے اعتبار سے نیشنل میوزیم آف پاکستان کراچی اس وقت بھی پاکستان کا سب سے بڑا عجائب گھر ہے۔ بظاہر تو کمیٹی کے کاموں کو لیپاپوتی کرکے تیار کیا گیا ہے، مگر اس کے ایک سال گزرنے کے بعد یہ بات سامنے آرہی ہے کہ تاحال کمیٹی کی جانب سے کچھ بھی پیش رفت نہیں ہوئی،کیونکہ کمیٹی بننے کے صرف دو ماہ بعد ہی وزیر موصوف کے ارادے اُن کے وزارتِ قانون کو مشورے کے لیے لکھے گئے ایک خط سے ظاہر ہوگئے۔
کنفلکٹ آف انٹرسٹ یعنی مفادات کا ٹکراؤ ایک اخلاقی، اصولی معاملہ ہے۔ اسلامی تاریخ تو بھری پڑی ہے ایسے بے شمار واقعات سے جب کسی قسم کے مفادات کے ٹکراؤ کو پنپنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ اتفاق سے تحریک انصاف بھی یہ دعوے کرتی رہی، لیکن موجودہ عارضی کمیٹی کی تشکیل خود مفادات کے ٹکراؤ کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔ شرمین عبیدچنائے و دیگر اراکینِ کمیٹی کی اکثریت خود ’سٹیزن آرکائیو آف پاکستان‘ کے نام سے ایک ایسی این جی او چلا رہے ہیں جو اسی تاریخی ورثہ وثقافتی ایجنڈے پر کام کررہی ہے۔ ان کی ویب سائٹ citizenarchive.org پر ان کی پوری تفصیل موجود ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ’ایک قادیانی خاتون کے ذاتی مفاد و ایجنڈے کی تکمیل کی خاطر ملک کے سب سے بڑے ثقافتی و تاریخی ورثہ کو حوالے کیا جارہا ہے۔ اس دوران ایک قصہ یہ بھی سامنے آیا ہے کہ وفاقی وزیر شفقت محمود کی بیٹی تارا محمود پاکستان کی ایک اوسط گلوکارہ و اداکارہ ہیں، جن کی بہت بڑی خواہش ہالی ووڈ کے کسی پروجیکٹ میں کام کرنے کی ہے۔ اب شرمین عبید چنائے سے اس کام کو کروانے کے عوض اُنہیں یہ قومی ادارہ حوالے کرنے کا منصوبہ ہے جس کے لیے وفاقی وزیر اپنے وزیراعظم کو بھی اس کام کے لیے مجبور کرنا چاہ رہے ہیں۔ خط کے مطابق قومی عجائب گھر کو ایک الگ خودمختار ادارہ بنانے کا منصوبہ سامنے آیا ہے جس کی ایک گورننگ باڈی ہوگی جو کہ موجودہ بنائی گئی عارضی کمیٹی ہی پر مشتمل ہوگی۔ اس عمل کے نتیجے میں باعزت انداز سے یہ پورا قومی ادارہ، اس کی تمام جگہ خودمختاری کا لیبل لگاکر نواز دی جائے گی۔ تب کہیں جاکر وزیر کی بیٹی کی خواہش پوری ہوگی اور وہ ہالی ووڈ میں جاکر اپنی اداکاری کے جلوے بکھیر سکیں گی۔
اب چلتے ہیں اصل قانون کی جانب جس کی دھجیاں بکھیری جارہی ہیں۔ قانون کے مطابق ’نوادرات ایکٹ1975‘ کی روشنی میں شق نمبر3کے مطابق وفاقی حکومت اس ادارے کے لیے ایک مشاورتی کمیٹی بناسکتی ہے، جس میں سینیٹ اور قومی اسمبلی سے ایک ایک رکن، جبکہ کمیٹی کا سربراہ لازمی طور پر رکن قومی اسمبلی ہونا چاہیے۔ اب اس اہم ترین شق کی روشنی میں کمیٹی بننے کا جائزہ لیں تو آپ کو خود اندازہ ہوجائے گا کہ کس طرح، کن مقاصد کے لیے یہ غیر قانونی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔ اس کے پیچھے چھپے ارادے کا اندازہ وزارتِ قانون و انصاف کی جانب سے جاری کردہ ایک میمورینڈم سے ہوا جو محض کمیٹی کی تشکیل کے صرف 2 ماہ بعد محکمہ قومی تاریخ و ادبی ورثہ کے 20 جون کے خط کے جواب میں جاری ہوا۔ اس خط کے مندرجات سے سازش طشت ازبام ہوئی کہ غیر قانونی کمیٹی کی تشکیل کے بعد وزیر موصوف کے کیا ارادے ہیں، جس کے لیے اُنہوں نے وزارتِ قانون سے تجاویز مانگیں۔
وزارتِ قانون کے مطابق قومی عجائب گھر کو خودمختار ادارہ بنانے کے لیے درج ذیل طریقوں میں سے کسی ایک طریقے کو اپناکر الگ خودمختار ادارہ بنایا جاسکے گا:۔
1:صدرِ مملکت کے ایگزیکٹو آرڈر کے نتیجے میں
2:1882ء ٹرسٹ ایکٹ کے تحت ایک ٹرسٹ بنا کر
3:سوسائٹی رجسٹریشن ایکٹ 1860 کے تحت
4:سیکشن42کمپنی آرڈیننس 1984کے مطابق ایک کمپنی بنا کر
5:قرارداد کے ذریعے
6:پارلیمنٹ کے ذریعے قانون سازی کرکے
آج کی تاریخ تک ہوسکتا ہے معاملہ کورونا کی وجہ سے التوا کا شکار ہو، لیکن امکان یہی ہے کہ وزیر موصوف کچھ کرنے کے بجائے اہم قومی ادارے کو خودمختار ادارہ بناکر من پسند گورننگ باڈی کے حوالے کرکے اس کی فائل بھی بند کرادیںگے۔