اب فرشتوں کے اُترنے کے وسیلے نہ رہے

1802

احمد حاطب صدیقی
اپنا بیان حسنِ طبیعت نہیں ’’کسے؟‘‘ … صاحبو! آج ایک قصہ بیان کرنا چاہا تو زورِ بیان میں خود اپنا ہی ایک شعر یاد آگیا۔ سو، قصہ سننے سے پہلے اپنے دل پر سل رکھ کر یہ شعر سن لیجیے:
اب فرشتوں کے اُترنے کے وسیلے نہ رہے
دل رسیلے نہ رہے، قول سجیلے نہ رہے
ہوا یوں کہ آج جب… کررہا تھا غمِ جہاں کا حساب … آج ’’وہ‘‘ یاد بے حساب آئے… سب سے پہلی بات جو یاد آئی وہ یہ تھی:
’’پیارے بھائی‘‘ کو پیسے سے محبت نہیں تھی۔
کہنا بہت آسان ہے۔ مگر اتنی آسان سی بات کا سمجھنا بہت مشکل ہے اور سمجھانا تو مشکل تر ہے۔
نام اُن کا ارتضیٰ علی تھا۔ مگر پورا محلہ انہیں ’’پیارے بھائی‘‘ کہہ کر پکارتا تھا۔ کیوں نہ پکارتا؟ ’’پیارے بھائی‘‘ خود اُن کا بھی’’ تکیۂ تخاظب‘‘ تھا۔ مانوس اور اجنبی ہر قسم کے بھائی کو بات بات پر ’’پیارے بھائی‘‘ کہہ کر مخاطب کرتے تھے۔ ایک ہمارا ہی محلہ کیا؟ وہ تمام محلّے انہیں ’’پیارے بھائی‘‘ کے نام سے جانتے اور پہچانتے تھے جہاں وہ اپنا ٹھیلا لے کر جایا کرتے تھے۔ ہر محلے کے بچے اور ہر محلے کی خواتین اُن کی درد بھری، مترنّماور سُریلی صدا کی گویا منتظر ہی رہا کرتیں۔ گلی میں یہ آواز گونجتے ہی دروازوں کے پٹ، پٹاپٹ کھلنے لگتے:
’’چُوڑی لے لو، ہار بُندے لے لو، سوئی، دھاگا لے لو، زری، گوٹالے لو، چُٹلا لے لو، بچوں کے کھلونے لے لو، صابن دانی لے لو‘‘۔
ہر دوسری صدا میں اشیائے فروختنی کی فہرست بدل جاتی۔ پیارے بھائی کا ٹھیلا انواع و اقسام کے اسبابِ ضرورت سے بھرا رہتا تھا۔ خواتین کو خوشی ہوتی کہ انہیں اپنی ضروری خریداری، بلکہغیر ضروری خریداری بھی، گھر کے دروازے ہی پرکر لینے کا موقع مل گیا۔
پیارے بھائی اپنے ٹھیلے کو اُسی طرح سے سجا بنا کر رکھتے تھے جیسے پٹھان ڈرائیورز اپنے بیڈفورڈ ٹرک یا مزدا ویگنوں کو سجا کر رکھتے ہیں۔ اس ٹھیلے پر بچوں کے لیے بسکٹ ٹافیاں، لیمن چُوس، لالی پاپ اور بہت سی دوسری ’’انگریزی مٹھائیاں‘‘ بھی شیشے کی برنیوں میں بھری رہتی تھیں، مگر وہ فروخت کم ہوتی تھیں اور تقسیم زیادہ۔ جہاں کسی خریدار گھرانے کا بچہ یا بچی انہیں نظر آئی، جھٹ برنی میں ہاتھ ڈالا، کوئی مٹھائی نکالی اور اپنی دلفریب مسکراہٹ کے ساتھ اُسے تھمادی … باوجود اِس کے کہ اُن کے ہونٹ (کیونڈر سگریٹ کی) کثرتِ سگریٹ نوشی سے سیاہ بھجنگ ہو چکے تھے، اُن کا منہ کثرتِ پان خوری سے کتھے کی کلھیا جیسا ہوگیا تھا اور اُن کے آگے کے دانتوں میں سے بس دو تین ہی زندہ سلامت رہ گئے تھے … اُن کی مُسکراہٹ بڑی دل کش تھی۔ دل کھینچ لیتی تھی!
پیارے بھائی کی اہلیہ وفات پا چکی تھیں۔ بس ایک بیٹا تھا۔ خود چٹّے اَن پڑھ تھے، مگر بیٹے کو پڑھا رہے تھے۔ واحد ذریعہ آمدنی یہی ٹھیلا تھا۔ ملیر توسیعی کالونی کراچی کے “F” ایریا میں مدینہ جامع مسجد کے پیچھے والی گلیوں میں اُن کا گھر تھا۔ اسّی گز کے رقبے پر صرف ایک کمرہ، باورچی خانہ، غسل خانہ اور بیت الخلا بنا ہوا تھا۔ (اُس زمانے کی روایات کے مطابق غسل خانہ الگ ہوتا تھا اور بیت الخلا الگ)۔ اس کے علاوہ سارے کا سارا رقبہ کچا صحن تھا۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ پیارے بھائی گھر میں ہوں یا نہ ہوں، ان کا بیٹا شاہد گھر میں ہو یا نہ ہو، گھر کا دروازہ چوبیس گھنٹے اور چوپٹ کھلا رہتا۔ محلے کا ہر شخص ان کے گھر کا محافظ تھا۔ ہم اسلامی جمعیت طلبہ کے کارکنان جس وقت چاہتے اُن کے گھر میں تنظیمی اجلاس رکھ لیتے اور جب چاہتے وہاں اجتماعِ عام منعقد کر لیتے۔ پیارے بھائی کی طرف سے نہ صرف کھلی چھوٹ تھی، بلکہ جب پیارے بھائی گھر میں موجود ہوتے تو شرکائے اجتماع کی تواضع بسکٹ اور ٹافیوں سے بھی کی جاتی۔ پیارے بھائی خود بھی تو جماعت اسلامی کے کارکن تھے۔
پیارے بھائی کی شخصیت بہت دبنگ تھی۔ حق کہنے کے معاملے میں کسی سے دبتے نہیں تھے۔ آواز بہت بلند تھی۔ گلی میں کسی ایک شخص کو بھی حق بات پر ڈٹ جانے کی تلقین کر رہے ہوں تو پوری گلی اُن کا ’’لائیو خطاب‘‘ گھر بیٹھے سن کر ڈٹ سکتی تھی۔ بات اتنے جوش و خروش سے کرتے تھے کہ سننے والے کا دل بھی جوش و ولولے سے لبریز ہو جاتا اور جی چاہنے لگتا کہ ابھی حق بات پر ڈٹنے کا کوئی موقع مل جائے تو فی الفور ڈٹ کر دکھا دیا جائے۔
اُن کی غربت کے باوجود لوگوں میں اُن کی بڑی قدر و منزلت تھی۔ وہ محلے کے ’’پیشوا‘‘ سمجھے جاتے تھے۔ یہ وہ دور تھا جب ابھی دولت معیارِ توقیر نہیں بنی تھی۔ معاشرے میں تقویٰ کی اچھی خاصی توقیر تھی۔ محلے میں دولت مند لوگ بھی تھے۔ مگر دولت کا دکھاوا نہیں تھا۔ ہر گھر میں ایک بیٹھک ضرور ہوتی تھی جس میں مہمان بٹھائے جاتے تھے۔ مگر یہ بیٹھک ابھی ’’لش پش ڈرائنگ رُوم‘‘ میں تبدیل نہیں ہوئی تھی۔ ہر بیٹھک میں ایک تخت بچھا ہوتا جس پر گاؤ تکیے رکھے ہوتے یا بہت سے بہت بید کی چند کرسیاں ڈال دی جاتیں۔ بیچ میں لکڑی کی ایک چھوٹی سی میز دھری رہتی۔ شادی بیاہ اور اموات و وفات کے مواقع پر بھی محلے کے لوگ مہمانوں کے بیٹھنے کے لیے اپنے اپنے گھروں سے چار پائیاں اور کرسیاں باہر نکال دیتے اور گھروں کے کمروں میں دسترخوان لگانے کا انتظام کر دیتے۔ بڑی سادگی سے برات یا ولیمے کی دعوت کی جاتی۔ شادی کے کھانے میں بالعموم صرف پلاؤ اور زردہ ہوتا تھا۔ کسی کی زیادہ استطاعت ہوتی، زیادہ مہمان بلانے کی وسعت ہوتی تو گلی سے باہر نکل کر میدان میں قناتیں اور شامیانے لگوا لیتا۔ بجلی، محلے کا کوئی گھر بھی فراہم کردیتا۔ دولت کا دکھاوا اور نمائش تو اُس وقت شروع ہوئی جب لوگ مشرقِ وسطیٰ کی ملازمتوں سے ’’پیٹرو ڈالرز‘‘ لے لے کر آئے اور اپنے اسباب میں رنگین ٹیلی وژن، فریج اور وی سی آر وغیرہ لدوا کر بڑی دھوم دھام سے محلے میں اُترے۔ ایسی ہر آمد پر بچوں اور خواتین کی رشک بھری نگاہوں سے اُن کا استقبال ہوتا۔
پیارے بھائی کی قدر و منزلت اس وجہ سے بھی زیادہ تھی کہ وہ کسی NGO کی طرح محلے بھر کی ’’خدمتِ خلق‘‘ کیا کرتے۔ خوشی، غمی اور دُکھ درد میں تو کام آتے ہی تھے۔ کسی کا کوئی بھی مسئلہ، کہیں بھی، اٹک جاتا تو پیارے بھائی اپنا ٹھیلا گھر کے اندر کھڑا کرکے اُس کے ساتھ چل پڑتے۔ روپے پیسے خرچ کرنے کی ضرورت پڑتی تو اپنی تنگ دستی کے باجود کھلے ہاتھ سے خرچ کرتے۔ تب ہی تو ہم نے کہا کہ پیارے بھائی کو پیسے سے محبت نہیں تھی۔ لوگوں سے تھی۔
ہر بُدھ کے دن محلے کے ہر گھر پر دستک دیتے۔ خواتین کو حسبِ مرتبہ خالہ، بہن، بیٹی یا بہو کہہ کر مخاطب کرتے۔ محلے بھر کی خواتین کو تلقین کر رکھی تھی کہ آپ جب بھی اپنے اہلِ خانہ کے لیے روٹی پکانے کو آٹا گوندھیں تو ایک مٹھی … بس صرف ایک مٹھی … آٹا اللہ کے نام پر اُن غریبوں کے لیے نکال دیا کریں جن کے گھر میں روٹی نہیں پکتی۔ بعض لوگوں نے اس مقصد کے لیے گھر میں الگ کنستر رکھ لیے تھے۔ پیارے بھائی ہفتے میں ایک دن یہ آٹا محلے کے ہر گھر سے جمع کرتے۔ یوں ہر گھر سے اُن کا رابطہ رہتا اور سب کی خیر، خیریت معلوم رہتی۔ آٹا بعض اوقات ایک بوری کے برابر جمع ہو جاتا تھا۔ یہ بوری خود اپنے کندھے پر لاد کر ’’جماعتِ اسلامی شعبہ خدمتِ خلق‘‘ کے دفتر پہنچا آتے۔ بسا اوقات غریب گھرانوں میں خاموشی سے یہ آٹا پہنچانے کی ذمے داری بھی پیارے بھائی ہی کو سونپی جاتی۔
پیارے بھائی عمر بھر رہے کارکن کے کارکن۔ جماعت اسلامی کے رُکن نہ بن سکے۔ اُس زمانے میں رُکنیت کی شرائط بہت کڑی تھیں۔ ان پڑھ ہونے کی وجہ سے تفسیر، حدیث اور دیگر دینی کتب کا مطالعہ کرنے سے قاصر تھے۔ مگر دروسِ قرآن، دروسِ حدیث اور دیگر تربیتی پروگراموں میں جتنی باتیں سنتے انہیں ازبر ہو جاتیں۔ اُن کی دینی معلومات بہت سے ڈگری ہولڈرز سے زیادہ تھیں۔ لوگوں کو دین کی طرف راغب ہونے کی دعوت دیتے تو اکثر اوقات دھواں دھار بحث و مباحثے پر بھی اُتر آتے۔ بحث ہمیشہ جیت جاتے۔ مگر ایک قدیم رُکنِ جماعتِ اسلامی نے بتایا کہ پیارے بھائی کی بحث بازی کی ’’کمزوری‘‘ بھی اُن کے رُکن بننے کی راہ میں حائل رہی۔
اُن کی حق گوئی و بے باکی اور بحث بازی کی عادت جماعت اسلامی کے اجتماعِ کارکنان میں بھی اپنا رنگ دکھاتی۔ جب کارکنان کی رپورٹ کا سیشن تمام ہوتا اور احتساب کا سیشن شروع ہوتا تو سب کی جان سُولی پر لٹک جاتی۔ حلقے کے ناظم صاحب سے لے کر تمام ارکان اور کارکنان دم سادھ کر بیٹھ جاتے کہ اب دیکھیے پیارے بھائی کی پٹاری سے وہ کون کون سی قابل گرفت باتیں برآمد ہوتی ہیں جو انہوں نے ہفتۂ رفتہ سے نوٹ کر کر کے رکھی ہوئی ہیں۔ پیارے بھائی اپنے تمام ساتھیوں کو قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں کا سا متقی اور دورِ خلفائے راشدین (رضی اللہ عنہم اجمعین) کے قائدین کی طرح بے داغ دیکھنا چاہتے تھے۔ جس روزخود پیارے بھائی کی کوئی قابل گرفت بات مل جاتی اور اُن کا احتساب کیا جاتا تو وہ ندامت سے رونے لگتے تھے۔ ہچکیاں بندھ جاتیں۔
۱۹۹۰ء میں ہمارا تبادلہ کراچی سے اسلام آباد ہوگیا تھا۔ پیارے بھائی نہ جانے کس دن فوت ہو گئے۔