ـ270ارب روپے کی بد عنوانیاں

443

پاکستان تحریک انصاف کی انتخا بی مہم میں لگائے گئے نعرے انتہائی خوش کن تھے ۔ یہی وجہ سے کہ ملک میں کرپشن سے تنگ عوام نے عمران خان سے امیدیں وابستہ کرلی تھیں ۔ عمران خان نیازی کے ان انتخابی نعروں میں ملک سے کرپشن کا خاتمہ ، لوٹی گئی رقم کی وطن واپسی اور کرپٹ افراد کو قرار واقعی سزا دینا شامل تھے اور بلاشبہ یہ سب کچھ عوام کے دل کی آواز تھی ۔ اقتدارسنبھالتے ہی عمران خان نیازی نے جس انداز میں کابینہ کی تشکیل کی ، اُس سے ہی ان کی ترجیحات کا اندازہ ہوگیا ۔ عمران خان نیازی کی کابینہ ان تمام افراد پر مشتمل تھی جو گزشتہ ادوار میں کرپشن کے ساتھ ساتھ نااہلی کے لیے معروف تھے ۔جو بوؤ گے وہی کاٹو گے ، عمران خان نے یہ کہاوت درست ثابت کی اور ان کے دور حکومت میں تیار ہونے والی پہلی رپورٹ ان کے لیے آئینہ ہے ۔ آڈٹ رپورٹ کے مطابق وفاقی وزارتوں اور محکموں میں 270 ارب روپے کی بدعنوانیوں اور بے ضابطگیوںکا انکشاف کیا گیا ہے ۔ 270 ارب روپے کی یہ بدعنوانیاں صرف اور صرف وفاق کے زیر انتظام محکمہ جات کی ہیں ۔ صوبائی حکومتوں اور بلدیات کے تحت ہونے والے اخراجات کو بھی شمار کرلیا جائے تو معاملات کئی ہزارارب روپے تک پہنچ جائیں گے ۔ اقتدار میں آنے کے بعد سے عمران خان اپنے انتخابی ایجنڈے کو اگر پورا کرنے پر توجہ دیتے تو یقینا ملک ترقی کی راہ پر چل پڑتا مگر عمران خان نے انہی کھوٹے سکوں کو نہ صرف خود کھرا جانا بلکہ ان کا اب بھی یہی اصرار ہے ۔ پی ٹی آئی حکومت میں 270 ارب روپے کی بدعنوانی کا مطلب ہے ، کام کے دنوںمیں ایک ارب روپے یومیہ سے زاید کی کرپشن ۔ اس ایک برس میں ملک پر قرض اتنا چڑھ گیا ہے جتنا گزشتہ دو حکومتوں میں بھی مجموعی طور پر نہیں چڑھا تھا،روپیہ اتنا بے قدر ہوگیا ہے جتنا دو حکومتوںمیں بھی نہیں ہوا تھا اور مہنگائی اتنی بڑھ گئی ہے ، جتنی گزشتہ دو حکومتوں میں بھی نہیں ہوئی تھی ۔ عمران خان خود بتائیں کہ معاشیات کا کون سا اشاریہ ہے جو ان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ترقی کی طرف اشارہ کرتا ہو۔ انہوںنے جب سے اقتدار سنبھالا ہے ، ہر قسم کی مافیا نہ صرف بے لگام ہوگئی ہے بلکہ ہر طرح کے خوف سے بے نیاز ہو کر عوام کی جیبوں پر ڈاکا ڈال رہی ہے اور عمران خان اور ان کی پوری کابینہ بیک آواز ہو کر عوام کے حقوق کا تحفظ کرنے کے بجائے مافیاکے دفاع میں مصروف ہوجاتے ہیں ۔ اگر آڈیٹر جنرل کی رپورٹ کو درست مان لیا جائے اور اس رپورٹ کو درست نہ ماننے کی کوئی وجہ بھی نہیں ہے ، تو پھر اصولی طور پر نہ صرف عمران خان کو عوام سے معافی مانگ کر اقتدار سے رخصت ہوجانا چاہیے بلکہ ان کے سلیکٹروں کو بھی عوام سے معافی مانگنی چاہیے ۔ عمران خان کا صرف یہی کمال نہیں ہے کہ انہوں نے ملک کو ایسے معاشی گرداب میں پھنسادیا ہے جس سے باہر نکلنے کی اب کوئی صورت باقی نہیں ہے بلکہ انہوں نے سویلین حکومت کو ہمیشہ کے لیے رخصت کردیا ہے ۔ وزیر اعظم کی بے بسی کا اندازہ اسی سے لگایا جاسکتا ہے کہ وزیر اعظم خود یہ اعلان کرے کہ فیصلے وہ نہیں کرتا بلکہ اشرافیہ کرتی ہے ۔ آڈیٹر جنرل کی بیان کردہ کرپشن کی یہ فہرست اس لیے بھی مختصر ہے کہ اس میں وہ بہت سارے محکمے شامل نہیںہیں جنہیں دفاع کے نام پر مقدس گائے کا درجہ دیا ہوا ۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کا یہ بھی کمال ہے کہ وہ اس طرح کی رپورٹوں کو ہمیشہ ردی کی ٹوکری میں ڈال کر خود چین کی بانسری بجاتی ہے ۔ آڈیٹر جنرل نے اپنی رپورٹ میں واضح طور پر سفارشات میں کہا ہے کہ وزارتوں اور محکموں کی کرپشن کے کیس تحقیقاتی اداروںکے سپرد کیے جائیں اور سرکاری اداروں کو پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر اخراجات کرنے اور انہیں سپلیمنٹری گرانٹس سے روکا جائے ۔ بدعنوان افسران کو کیفر کردار تک پہنچانا تو دور کی بات ہے ، عمران خان آڈیٹر جنرل کی ان سفارشات پر بھی عمل نہیں کریں گے کہ اپنے دور میں ہونے والی بدعنوانیوں کی تحقیقات کے لیے کیس تحقیقاتی ایجنسیوں کو بھیجے جائیں ۔ ان کا تو یہ بھی کمال ہے کہ وفاقی تحقیقاتی ایجنسی نے شوگر اسکینڈل کی رپورٹ پیش کی تو انہوں نے اپنی ہی ایجنسی کی تحقیقاتی رپورٹ پرعمل کرنے کے بجائے اس کے رد کے لیے ایک کمیشن ہی تشکیل د ے دیا ۔ اب کہاں وہ وعدے کہ کرپشن ختم کی جائے گی اور کہاں وہ دعوے کہ بیرون ملک بینکوں میں پاکستان سے لوٹی گئی رقم وطن واپس لاکر قرض دینے والوں کے منہ پر ماری جائے گی ، اب تو عمران خان نیازی خود بھی کرپشن کی نمک کی کان میں نمک بن گئے ہیں ۔