کفن سرکاؤ میری بے زبانی دیکھتے جاؤ

661

آہ، سید منور حسن شہید حق و صداقت ہو گئے۔ ویسے تو پورا پاکستان ہی ان کو خوب اچھی طرح جانتا تھا لیکن مصلحت پسند پاکستانی ایسے سانس کھینچے بیٹھا تھا جیسے بولا تو دار پر چڑھا دیا جائے گا۔ یوں تو پاکستان کا ایک ایک فرد مردہ پرست ہی ہے، میں کوئی ان سے جدا تو نہیں، میں بھی سب کی شکلیں ہی دیکھتا رہا تھا لیکن ایک سیدی کے انتقال کی خبر سن کر جیسے پورے پاکستان کے منہ میں زبان ڈال دی گئی ہے چنانچہ ہر نیک و بد ان کی زندگی کے وہ پہلو بھی اجاگر کرنے میں لگا ہوا ہے جو شاید ان کے گھر والوں کی نظروں سے بھی پوشیدہ رہے ہوں۔ سید منور حسن کو اگر اللہ صرف چند لمحوں کے لیے دوبارہ زندگی دیدے اور وہ اپنے متعلق پاکستان کے پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا پر مبصرین کے تبصرے سن لیں تو دوبارہ شادی مرگ کا شکار ہوجائیں۔
اب سید منور حسن کی زندگی کی پیدائش سے لیکر آخری سانسوں تک کی کہانیاں اخبارات کی زینت بنیں گی۔ ان کے طالب ِ علمی کے زمانے سے لیکر جماعت اسلامی کی امارت تک کے ایک ایک پہلو پر نہایت سیر حاصل گفتگو سامنے آئے گی۔ کب ولادت ہوئی، کیسے اور کہاں سے طلبہ سیاست کا آغاز ہوا، این ایس ایف سے اسلامی جمعیت طلبہ میں کس طرح اور کیوں شمولیت ہوئی، اسلامی جمعیت طلبہ کی رکنیت سے اس کی امارت تک کی سیڑھیاں کیسے طے ہوئیں، جماعت اسلامی میں کیوں شمولیت اختیار کی اور اس کی امارت کی بلندی کو کس طرح چھولیا۔ پوری زندگی ڈکٹیٹروں کو کیسے آنکھوں دکھاتے رہے اور پھر اچانک اپنے ہی ملک کی اسٹیبلشمنٹ کی آنکھوں میں کیوں کھٹکنے لگے اور اسٹیبلشمنٹ کے سخت سوال ’’جماعت اسلامی واضح کرے کہ سید منور حسن کا امیر جماعت ہوتے ہوئے فلاں بیان جماعت اسلامی کی پالیسی ہے یا ان کا ذاتی ہے‘‘۔ پر امیر جماعت ہوتے ہوئے انہوں نے پوری جرأت اور بہادری کے ساتھ جواب دیا کہ ’’اسٹیبلشمنٹ یہ سوال خود کس حیثیت میں کر رہی ہے‘‘۔ پر یہ راز کھلا کہ امیر جماعت کے موقف اور جماعت اسلامی کے موقف میں کوئی فرق ہو یا نہ ہو، کئی جانب سے عجیب عجیب رویے اور بیانات سامنے آنا شروع ہوئے اور پھر دستوری اور ’’قانونی‘‘ وقت اور مرحلہ گزر جانے کے بعد کچھ یوں ہوا کہ
بوئے گل، نالہ دل، دودِ چراغِ محفل
جو تری بزم سے نکلا سو پریشاں نکلا
سید منور حسن کچھ ایسے ہی تھے۔ پوری زندگی اسی دلیرانہ انداز میں گزاری۔ کراچی جیسے مشکل شہر میں بھی بے خوفی کے ساتھ جیے اور جماعت اسلامی کو بھی بے خوفی کا پیغام دیا لیکن مصلحت کا کبھی شکار نہیں ہوئے۔ مصلحت کا وہ اس وقت بھی شکار نہیں ہوئے جب بنگلا دیش ابھی نہیں بنا تھا۔ پاکستان کے ایک ایک کونے میں رہنے والے ہر ایک ’’مغربی‘‘ پاکستانی کو یہ یقین دلایا جا رہا تھا کہ پاکستان کو کچھ نہیں ہونے والا تو اس موقع پر بھی سید منور حسن کی حقیقت پسندانہ طبیعت کے لیے یہ بات گوارہ نہیں تھی کہ وہ قوم سے حقائق چھپائیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ مشرقی پاکستان کی علٰیحدگی سے کچھ ہفتے پہلے کورنگی کے ایریا (کراچی) میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے جلسے میں شریک تمام شرکا کو آگاہ کر دیا تھا کہ حالات اب اس حد تک خراب ہو چکے ہیں کہ آپ ہر قسم کی بری خبر سننے کے لیے تیار رہیں۔
سید منور حسن اپنی آخری سانس تک اس بات پر قائم رہے کہ انقلابات صرف تبلیغ و خطابات سے نہیں آیا کرتے۔ انقلاب لانے کے لیے جہاں لوگوں تک اپنی بات پہنچانا اور اپنے موقف کے لیے انہیں ذہنی طور پر تیار کرنا ہوتا ہے وہیں مقدور بھر طاقت و قوت کا استعمال بھی بہت ضروری ہوتا ہے۔ وہ غلط بھی نہیں کہتے تھے۔ دنیا میں آج تک کوئی انقلاب بغیر قربانیاں دیے برپا ہوا ہی نہیں خواہ وہ انقلاب کافرانہ مقاصد کی تکمیل کے لیے ہو یا حق پرستانہ عزائم کے لیے۔ تبلیغ کے ساتھ ساتھ شمیر کا کردار کسی طور نظر انداز کیا ہی نہیں جا سکتا۔ اگر انقلابات صرف تبلیغ ہی سے برپا ہونا ممکن ہوتا تو پاکستان میں جماعت اسلامی سمیت کئی ایسی جماعتیں ہیں جو ستر ستر اسی اسی سال سے تبلیغ کا کام بحسن و خوبی انجام دیتی چلی آ رہی ہیں لیکن اس پاکستان میں جو بنا ہی اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے تھا، ایک دن کے لیے بھی اسلام نافذ کرنے میں بری طرح ناکام و نا مراد ہیں۔ سید منور حسن کا یہی وہ نکتہ تھا جو اسٹیبلشمنٹ کے لیے سوہانِ روح بنا ہوا تھا اور خود جماعت کے لیے ایک بہت بڑی آزمائش سے کم نہ تھا۔ سید منور حسن کے رحلت فرما جانے کے بعد ایسے تمام مصلحت پسندوں اور ان حلقوں کے لیے جن کی آنکھیں ان کی حقیقت پسندی کو سن کر اپنے حلقوم سے باہر نکلنے لگتی تھیں، صرف اتنا ہی عرض کرنا چاہوں گا کہ
سہے جاتے نہ تھے تم سے مرے دن رات کے شکوے
کفن سرکاؤ میری بے زبانی دیکھتے جاؤ