لیبر کو کنکرنٹ لسٹ میں شامل کیا جائے

833

 

۔35 سال میں حکومتوں نے متعدد بار کوششیں کیں کہ لیبر قوانین میں بہتری لائی جائے۔ اس ضمن میں کئی مرتبہ لیبر کمیشن اس مقصد کے لیے بنائے گئے کہ ایک ہی طرح کے قوانین کو یکجا کرکے اُن پر عمل درآمد کو سہل بنایا جائے۔ مختلف ادوار میں جسٹس (ر) ذکی الدین پال، جسٹس (ر) شفیع الرحمن، شجاعت مرزا، شہناز وزیرعلی کو ان کمیشنوں کی نگرانی سونپی گئی۔ انہوں نے کافی جامع اور مفید سفارشات تیار کرکے حکومت وقت کو دیں لیکن اُن کو نہ تو قانون سازی کے لیے قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا اور نہ ہی پایہ تکمیل تک پہنچانے کی کوشش کی گئی۔ چناں چہ اصلاحات کی عدم موجودگی میں لیبر قوانین کی حالت بد سے بدتر ہوتی چلی گئی۔ اپریل 2010ء میں پاس ہونے والی اٹھارویں ترمیم نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی ۔ پاکستان کے لیبر قوانین بھی انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (ILO) کی جاری کردہ کنونشنز کو مدنظر رکھ کر بنائے گئے ہیں۔ 1919ء میں لیگ آف نیشنز کے قیام کے بعد ILO اس وقت تک 190 کنونشنز جاری کرچکا ہے، جن میں سے پاکستان نے اب تک 36 کنونشنز کی توثیق کی ہے۔ چوں کہ یہ توثیق وفاقی حکومت نے کی ہے ان پر عمل درآمد کی ذمہ داری بھی وفاقی حکومت پر عاید ہوتی ہے۔ اس حقیقت کو نظر انداز کرتے ہوئے لیبر کے موضوع کو بھی آئین کی کنکرنٹ لسٹ سے ہٹا کر اس کی منتقلی صوبائی حکومتوں کو کردی۔ چنانچہ اپریل 2010ء سے لیبر قوانین کے بنانے، اُن میں کوئی ترمیم کرنے اور قوانین پر عمل درآمد کرانے کی تمام تر ذمہ داری اب صوبائی حکومتوں کے پاس ہے۔ اٹھارویں ترمیم اُس وقت کی گئی کہ جب وفاقی حکومت پاکستان پیپلز پارٹی کے پاس تھی۔ لیکن اس کے بقیہ تین سالوں میں صوبوں نے کوئی خاطر خواہ قوانین نہیں بنائے لیکن جونہی 2013ء میں اقتدار پاکستان مسلم لیگ (نواز) کو ملا تو صوبوں نے دھڑا دھڑ اپنے لیبر قوانین بنانے شروع کردیے۔ زیادہ تر صوبوں نے وفاقی حکومت کے پہلے سے موجود قوانین کو اپنے اپنے صوبے کے نام سے جاری کردیا۔ اس ضمن میں سندھ حکومت نے نہ صرف سب سے زیادہ لیبر قوانین کا نفاذ کیا بلکہ اُن میں بے انتہا ترامیم کرکے ان کے دائرہ اختیار کو کافی بڑھادیا۔ جب لیبر قوانین بالخصوص محنت کشوں کی فلاح وبہبود کے قوانین میں ترمیم کی جاتی ہیں تو اُن کا اچھا یا بُرا ااثر براہِ راست اُن کارکنان پر آتا ہے کہ جن پر ان قوانین کا اطلاق ہوتا ہے۔ یہاں پر یہ امر کافی قابل تشویش ہے کہ گزشتہ ایک دہائی سے یعنی اٹھارویں ترمیم کے بعد تمام اہم لیبر ویلفیئر قوانین مسلسل مسائل یعنی آجروں اور ان قوانین کو چلانے والے گورنمنٹ کے اداروں کے مابین جھگڑے اور اعلیٰ عدالتوں میں مقدموں کا شکار ہیں جس کا نقصان محنت کشوں کو ہورہا ہے۔ فروری 2011ء میں سندھ
ہائی کورٹ کا ایک فیصلہ آیا کہ جس میں فنانس ایکٹ 2007ء کے تحت پانچ لیبر قوانین میں ترمیم کو آئین کی خلاف ورزی قرار دے کر کالعدم کردیا۔ محنت کشوں کے Companies Profit (Workers Participation) 1968 Act میں کی گئیں ترامیم کارکنوں کے لیے بہت اہمیت کی حامل تھیں۔ کیوں کہ ان میں ورکر کی تعریف میں ٹھیکیداروں کے ملازمین کو بھی شامل کرلیا گیا تھا اور کارکنوں کے منافع میں حصے کو بھی بڑھا دیا گیا تھا لیکن عدالتی فیصلے سے یہ فوائد محنت کشوں کو مزید نہ مل سکے۔ 2007ء میں کی گئیں ترامیم وفاقی حکومت نے کی تھیں کہ جو 2011ء میں اٹھارویں ترمیم کے اطلاق کی وجہ سے اب ان کو قومی اسمبلی سے درست نہیں کرواسکتی تھیں۔ اس فیصلے پر سپریم کورٹ میں اپیل بھی ہوئی لیکن اس نے بھی سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کو درست تسلیم کیا۔ محنت کشوں کے مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے صوبوں کو چاہیے تھا کہ وہ اپنے اپنے قوانین بنا کر ان پانچوں لیبر قوانین میں 2007ء میں دیے گئے مزید فائدوں کو بحال کردیتے۔ لیکن ایسا نہیں کیا گیا اور پاکستان بھر کے تمام صنعتی اور تجارتی کارکنان ان فائدوں سے محروم ہوگئے۔ اس ضمن میں سندھ حکومت نے پیش رفت کی اور Sindh Companies Profit Act,2015 (Workers Participation) کا نفاذ کیا اس ایکٹ کے تحت 2011ء میں عدالتی فیصلے کی وجہ سے کالعدم قرار دی جانے والی تمام مراعات کو بحال کردیا گیا جو کہ ایک اچھی پہل تھی۔ لیکن ایکٹ کو صوبائی اسمبلی سے منظور کرانے سے پہلے سندھ حکومت نے وفاقی حکومت اور باقی تینوں صوبوں کی حکومتوں سے اس سلسلے میں نہ تو کوئی رابطہ کیا اور نہ ہی صلاح مشورہ کیا جس سے ان صوبوں کے کارکنوں کے لیے اور بھی مسائل پیدا ہوگئے۔ کیونکہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں زیادہ صنعتیں نہیں ہیں اُن کے لیے کارکنوں کی کمپنی کے منافع میں حصے کا قانون بنانا سود مند نہیں ہے۔ اٹھارویں ترمیم سے پہلے 1968ء کے ایکٹ اور Workers Welfare Fund Ordinance 1971 کے تحت اکٹھی ہونے والی تمام رقوم ورکرز ویلفیئر فنڈ میں جمع ہوتی تھیں اور وفاقی حکومت یہ رقم چاروں صوبوں میں ایک تعین شدہ تناسب سے تقسیم کردیا کرتی تھی جس کا استعمال کارکنوں کی فلاح وبہبود کے کاموں میں ہوتا تھا۔ لیکن گزشتہ دس سالوں سے ایسا نہیں ہورہا ہے جس کا نقصان بھی مزدوروں کو برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ سندھ کے اپنے ایکٹ کے پیش نظر اس صوبے میں واقع کمپنیوں کے ملازمین کو تو منافع کا مناسب حصہ مل رہا ہے لیکن بین الصوبائی اور باقی تینوں صوبوں میں موجود کمپنیاں تذبذب کا شکار ہیں کہ وہ منافع میں حصے کی ادائیگی کی تقسیم کس شرح پر کریں۔ ملازمین کی فلاح وبہبود کے لیے سب سے پہلا ایک اہم قانون Provincial Employees Security Ordinance 1965 جاری کیا گیا جس کے تحت سوشل سیکورٹی اسکیم متعارف کی گئی۔ اس کا مقصد ملازمین اور ان کے لواحقین کو بیماری، زچگی
اور کام کے دوران چوٹ لگنے کی صورت میں فائدہ پہنچانا اور موت پر مالی امداد فراہم کرنا تھا۔ اگرچہ اس قانون میں ترامیم صرف وفاقی حکومت کرسکتی تھی لیکن اس کی شقوں پر عمل درآمد کرنا ہر صوبے کی اپنی ذمہ داری تھی جس کو نبھانے کے لیے انہوں نے ادارے قائم کر رکھے ہیں۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبوں نے اپنے ایکٹ بنائے ہیں جس کی بنا پر اب وہ ان میں اپنی مرضی سے ترامیم کرسکتے ہیں۔ سندھ حکومت نے Sindh Employees Social Security Act,2016 نافذ کیا ہے۔ اس ایکٹ کی دفعہ 75 کے مطابق تحفظ شدہ ملازمین (Secured Employees) کو ایکٹ کے تحت دیے جانے والا فائدہ اگر ملازمین کی ماہانہ تنخواہ موجود کم سے کم اجرت مبلغ 17500 روپے اور 22500 روپے کے درمیان ہے تو اُسی تنخواہ پر دیا جائے گا۔ لیکن اس قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سیسی ملازمین کو یہ فوائد اب تک مبلغ 500 روپے کے حساب سے ادا کررہا ہے۔ سب سے زیادہ مسائل کارکنان کی فلاح و بہبود کے سب سے اہم قانون Old-Age Benefit Act,1976 Employees کو لاحق ہیں۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد صرف سندھ حکومت نے اپنا Sindh Employees Old-Age Benefits Act,2014 جاری کیا ہے۔ لیکن اس قانون پر عمل درآمد کرنے کی ذمہ داری ابھی تک وفاقی حکومت نے اپنے ہاتھ میں لے رکھی ہے۔ جس کا قائم کردہ ادارہ اسے چلارہا ہے۔ سندھ حکومت نے اپنا کوئی ادارہ نہیں بنایا ہے چونکہ سندھ حکومت نے اپنے ایکٹ کو نافذ العمل کردیا ہے اس لیے صوبہ سندھ میں واقع بے شمار کمپنیاں وفاقی ادارے
کو ماہانہ کنٹری بیوشن گزشتہ چھ برسوں سے ادا نہیں کررہی ہیں۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد وفاقی حکومت 1975ء کے ایکٹ میں کوئی ترمیم کرنے سے قاصر ہے جس کی وجہ سے پنشن اسکیم کے حالات بد سے بدترین ہوتے جارہے ہیں اور اگر یہی کیفیت رہی تو ملازمین کے بے انتہا فائدے کی یہ اسکیم مزید دو تین سال سے زیادہ چل نہیں سکے گی۔ اس کی حالیہ مثال یہ ہے کہ پی ٹی آئی حکومت میں وزیراعظم کے خصوصی اسسٹنٹ برائے بیرون ملک پاکستانیز اور ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ ذوالفقار حسین بخاری نے جنوری 2020ء سے EOBI ماہانہ پنشن میں دو ہزار روپے اضافہ کرکے اسے مبلغ 8500 روپے کردیا تھا اور تمام پنشنرز کو اس کی ادائیگی بقایا جات کے ساتھ مارچ 2020ء کی پنشن کے ساتھ ہوئی۔ لیکن جب اپریل 2020ء کی پنشن لینے کا وقت آیا تو EOBI نے پنشنرز سے معذرت کرلی کہ چند قانونی پیچیدگیوں کے پیش نظر پنشن کی ادائیگی پھر سے مبلغ 6500 روپے کی جائے گی۔ حکومت کے اس عمل سے غریب پنشنرز کی چند روزہ خوشی مایوسی میں تبدیل ہوگئی۔ ایک اور غور طلب امر یہ بھی ہے کہ EOBI کو ماہانہ کنٹریبوشن کی جو رقم ملنی چاہیے وہ نہیں مل رہی۔ کیونکہ وفاقی حکومت 1976ء کے ایکٹ میں کوئی ترمیم کرنے سے قاصر ہے اس لیے کمپنیاں یہ کنٹریبوشنز مختلف شرح سے ادا کررہی ہیں، کوئی 8000 روپے کا چھ فی صد فی ملازمین ماہانہ ادا کررہا ہے اور کوئی مبلغ 1300 روپے پر ادائیگی کررہا ہے حالانکہ ان کو موجودہ کم سے کم اجرت یعنی مبلغ 17500 روپے کے چھ فی صد پر ادائیگی کرنی چاہیے۔ مندرجہ بالا معاملات کچھ ایسے نہیں ہیں کہ جن کو حل نہ کیا جاسکتا ہو۔ اگر تمام صوبائی حکومتیں وفاقی حکومت کے ساتھ تعاون کریں اور ایک دفع مل کر یہ فیصلہ کرلیں کہ کیا ایک اور آئینی ترمیم بروئے کار لا کر لیبر کا موضوع وفاقی حکومت کو واپس کرنا ہے یا کہ اٹھارویں ترمیم کے تحت اس کا اختیار صوبوں کے پاس ہی رہنا چاہیے لیکن اس کو کس طرح سے موثر بنایا جائے کہ فلاح وبہبود کے قوانین کی روح اور بنیادی مقصد برقرار ہے۔ ان مسائل کا حل نکالنا اس لیے بھی ضروری ہوگیا ہے چونکہ اس وقت کووڈ 19 کے باعث کارکنوں کے لیے صورت حال بہت ہی تشویش ناک ہے اور ان کی وافر تعداد بے روزگار ہوچکی ہے۔ جس کا حل حکومت کے پاس بھی نہیں ہے۔ راقم الحروف گزشتہ تقریباً نصف صدی سے مختلف کمپنیوں میں انڈسٹریل ریلیشنز کے شعبے سے منسلک رہا ہے۔ میرا یقین ہے کہ یہ مسائل لیبر کے موضوع کو دوبارہ آئین کی کنکرنٹ فہرست میں شامل کرنے سے ہی حل ہوسکتے ہیں۔