اعجاز شیخ کی خدمات

240

 

سابق ڈائریکٹر لیبر سندھ شیخ محمد اعجاز 22 جون بروز پیر ہارٹ اٹیک کے سبب دنیائے فانی سے کوچ کر گئے۔ ہم ذیل میں احباب کے ان کے بارے میں خیالات شائع کررہے ہیں
گلفام نبی
لیبر ڈائریکٹریٹ پر انتہائی مضبوط گرفت رکھنے اور ادارے کو کامیابی کی منازل پر لے جانے والے سابق ڈائریکٹرلیبر سندھ شیخ محمد اعجاز ہارٹ اٹیک کے سبب دنیائے فانی سے کوچ کرگئے۔ اپنے کیریئر کے دوران وہ ڈائریکٹوریٹ لیبر میں کام کرتے رہے اور ڈائریکٹر لیبر سندھ کے عہدے پر فائز ہوئے۔ انہوں نے حیدرآباد ریجن حیدرآباد ایڈیشنل ڈائریکٹر لیبر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔ واقعتا وہ محکمہ کے لئے ایک بہت بڑا اثاثہ تھا اور ان کی ہر منٹ کی خدمت سندھ میں غریب محنت کش برادری کی مدد اور مدد کے لئے مختص کی گئی تھی۔ اس کے دروازے ہمیشہ شکایت کنندہ کے لئے کھولے جاتے تھے اور صنعتی تنازعہ کو حل کرنے کے اس کا وڑن مبہم تھا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی وہ ہمیشہ محکمہ کی مدد اور رہنمائی کے لئے موجود تھا۔ آج ان شخصیات کا لگایا ہوا پودا سایہ دار درخت بن چکاہے جو پاکستان سمیت دنیا کے مزدوروں کیلئے روشنی کی کرن ثابت ہورہا ہے۔ شیخ اعجاز کی وفات پر گہرے دکھ ور نج کے ساتھ دعاگو ہیں کہ رب العزت انہیں اپنے جواررحمت میں جگہ عطاکرے اور انہیں جنت کے باغوں کی خوشیاں نصیب کرے آمین۔
ہر آدمی میں ہوتے ہیں دس بیس آدمی
چودھری محمد اشرف خان ایڈووکیٹ
جناب ندا فاضلی کے اس مصرعے کا مصداق جناب اعجاز احمد شیخ مرحوم تھے۔ آپ محکمہ محنت حکومت سندھ میں بڑے زیرک اور معاملہ فہم افسر تھے اور شاید پہلے اور آخری افسر تھے جو ترقی کرتے کرتے ڈائریکٹر لیبر کے عہدے تک پہنچے کیونکہ اس عہدے پر ہمیشہ سی بی ایس پی/ پی سی ایس ہی تعینات ہوتے تھے۔ مصالحتی فن کے ماہر تھے۔ اُن کے دور میں انہوں نے بڑے بڑے صنعتی تنازعات کو اپنے تجربے، تعلقات اور معاملات کو سلجھانے کی غیر معمولی صلاحیت سے حل کروایا۔ چونکہ نچلی سطح سے ترقی کرتے کرتے اوپر تک پہنچے تھے اس لیے اپنی غیر معمولی معاملہ فہمی کے ساتھ مزدور رہنمائوں اور آجران سے تعلقات کی بنا پر بڑے سے بڑے معاملے کو سلجھا دیا کرتے تھے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد آپ این آئی آر سی (NIRC) کے ممبر بنے۔ یہاں بھی اُن کی خداداد صلاحیت نے ایسی رہنمائی کی کہ بڑے پیچیدہ قانونی نکتے کو فوراً سمجھ جاتے تھے۔ ہائوس بلڈنگ فنانس کارپوریشن کی یونین کے صدر یا جنرل سیکرٹری کو انتظامیہ نے تنگ کرنے کے لیے آزاد کشمیر ٹرانسفر کردیا۔ میں نے NIRC میں کیس کیا اور اس بنا پر چیلنج کیا کہ یہ ساری سازش اُسے یونین کے ہٹانے کے لیے کی گئی ہے۔ شیخ صاحب کا استفسار تھا کہ کیا انتظامیہ تبادلہ بھی نہیں کرسکتی جو کہ اُس کا حق ہے۔ میرے بتانے پر کہ کرسکتی ہے بشرطیکہ دوسرے ملک میں نہ ہو جہاں پاکستان کا آئی آر او (IRO) لاگو نہ ہوگا اور جہاں جانے کے بعد وہ یونین کا عہدیدار نہ رہ سکتا ہو۔ انہوں نے فوراً حکم امتناع جاری کردیا۔ شیخ صاحب کچھ عرصہ جناب ریٹائرڈ جسٹس مختار احمد جونیجو کے چیمبر میں بھی ایسوسی ایٹ رہے اور اب ایک دہائی سے زائد عرصہ سے انڈسٹریل ریلیشنز میں ایڈوائزری کے جوہر دکھارہے تھے۔ لیکن اب یہ ایک آدمی جس میں دس بیس آدمی تھے ہم سے بچھڑ گیا ہے اور جو ’’بچھڑ گیا تو کبھی لوٹ کر نہیں آیا‘‘ شیخ صاحب بھی لوٹ کر نہیں آئیں گے لیکن اُن کی یادیں ہمارے ساتھ رہیں گی۔ اللہ کریم اُن کے درجات بلند فرمائے اور جنت کے باغات میں اُن کا ٹھکانہ ہو۔ آمین یارب العالمین۔
اعجاز احمد شیخ میری نظر میں
رانا محمود علی خان
قاضی سراج انچارج صفحہ محنت کش کے ذریعے مجھے یہ معلوم ہوا کہ سابق ڈائریکٹر لیبر سندھ اعجاز احمد شیخ گزشتہ دنوں انتقال فرما گئے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ مرحوم کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ان کے لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائیں۔ اعجاز شیخ مرحوم سے میرے بہت اچھے تعلقات رہے ہیں وہ حیدرآباد ریجن کے کئی سال تک ایڈیشنل ڈائریکٹر لیبر اور رجسٹرار ٹریڈ یونین کی حیثیت سے کام کرتے رہے اور اس کے بعد اسی پوسٹ سے وہ ڈائریکٹر لیبر سندھ پر فائض ہوئے۔ اعجاز احمد شیخ بحیثیت انسان بہت اچھے انسان تھے اور اسی حیثیت سے ایڈیشنل ڈائریکٹر لیبر اور ڈائریکٹر لیبر کی حیثیت سے انہوں نے جو خدمات انجام دی اور لیبر ڈپارٹمنٹ سندھ کا جو امیج بڑھایا وہ ناقابل فراموش ہے وہ اپنے مزاج کے اعتبار سے سخت ایڈمنسٹریٹر بھی تھے۔ مرحوم کے زمانے میں بہت کم ایسا ہوا کہ مرحوم نے کسی شکایت پر آرڈر کیا اور کوئی رپورٹ طلب کی اور نیچے کے افسران نے بروقت وہ رپورٹ نہیں دی تو وہ ان کے خلاف سخت ایکشن لیتے تھے یہ ہی وجہ تھی کہ جو ائنٹ ڈائریکٹر لیبر ہو یا ڈپٹی ڈائریکٹر لیبر یا اسسٹنٹ ڈائریکٹر لیبریا لیبر آفیسر کوئی تحریر کو ئی آرڈر ان کے پاس پہنچ جاتا تو اس پر وہ فوری ایکشن لیا کرتے۔ اعجاز احمد شیخ حکومت اور لیبر فیڈریشنز کے درمیان اچھے تعلقات قائم کرنے میں اہم کردار ادا کرتے تھے یہ ہی وجہ ہے کہ ان کے زمانے میں جتنی بھی سے فریقی کانفرنس ہوئی یا باڈی تشکیل دی گئی اس میں تمام نمائندہ فیڈریشنز کو نمائندگی دی جاتی تھی۔ حکومت کے مخالف فیڈریشن یا یونین کے الیکشن اور ریفرنڈم میں وہ حکومت کی مداخلت کو برداشت نہیں کرتے تھے اور لیبر ڈپارٹمنٹ کی غیر جانبدارانہ پوزیشن کو ہمیشہ برقرار رکھا مرحوم کا دور لیبر ڈپارٹمنٹ میں سنہرے دور سے یاد رکھا جائے گا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی وہ اکثر مجھ سے ٹیلی فو ن پر خیریت دریافت کرتے۔ ان کی وفات پر مجھے ذاتی طور پر بھی بہت افسوس اور رنج ہوا اﷲ ان کی مغفرت فرمائے۔