اسامہ کا رتبہ شہید یا دہشت گرد

1000

کسی بھی معاملے کو متنازع بنانا ہو تو اس میں سوالات اٹھا دیے جاتے ہیں پھر لوگ اس بحث میں لگ جاتے ہیں یہی کچھ سیکولر قوتیں اس ملک میں کر رہی ہیں کہ دو اور دو چار کی طرح واضح امور کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے متنازع شکل دے دیتے ہیں پھر قوم فوری طور پر دو حصوں میں بانٹ دی جاتی ہے یہی کچھ اسامہ بن لادن کے ساتھ بھی ہو رہا ہے حالانکہ کچھ حلقے اگر کھل کر اس کو شہید نہیں کہہ سکتے شاید ان کے نزدیک کچھ مصلحتیں ہوں یہ تو وہی بہتر جانتے ہیں لیکن ہم بحیثیت پاکستانی اس کا تجزیہ تو کرنے کا حق رکھتے ہیں کہ شہید اور دہشت گرد میں کیا فرق ہو سکتا ہے اور قرآن و حدیث اس معاملے میں انسان کی کیا رہنمائی کرتے ہیں اور جو لوگ اندھا دھن اسامہ کو دہشت گرد گردانتے ہیں ان کے پاس بھی اسی طرح کے ٹھوس دلائل ہونے چاہئیں تاکہ بحث کرتے وقت دونوں کے موقف کو سامنے رکھ کر فیصلہ کرنے میں آسانی ہو۔ ہم یہاں کسی کی ذات کو نشانہ نہیں بنانا چاہتے مگر نظریات۔ سوچ، کردار، فکر اور اہداف بھی شخصیت ہی سے برامد ہوتی ہیں۔ شہید اس کو کہا جاتا ہے کہ جو اسلامی سلطنت کے دفاع یا اللہ کی راہ میں کفار سے لڑتے ہوئے اپنی جان کی بازی لگادے اور نقد جان اس جان آفریں کے حوالے کردے جس نے اس کو پیدا کیا اور اسی کی راہ میں لڑنے اور مرنے کی توفیق عطا کی۔ اسامہ بن لادن نہ صرف ایک اسلامی سلطنت کا دفاع کرتے ہوئے اس ملک کا باشندہ نہ ہونے کے باوجود بلکہ اپنی شاہانہ زندگی اور اربوں ڈالر کے اثاثے عرب میں چھوڑ کر عجم میں آ نکلا تھا بلکہ غریب الوطنی میں اس نے اسلامی سلطنت کا دفاع کرنے والوں کا ساتھ دیا اور اسی مشن میں اپنی جان کھپا دی یہاں تک تو یہ بات ثابت ہوسکتی ہے کہ اسامہ بن لادن نے قرآن کی رو سے اسلامی سلطنت پر حملہ آور یکے بعد دیگرے دو کفار کی افواج کا مقابلہ کیا جن کے ساتھ کفار کا لشکر عظیم شامل تھا پہلے ایک بظاہر ناقابل تسخیر کافر حکومت کو شکست دے کر اس کا شیرازہ ایسے بکھیر دیا کہ رہتی دنیا تک مورخ اپنا قلم ہی گھستا رہے گا مگر اس کی داستانیں ختم نہ ہوکر دیںگی اور دوسری مرتبہ اس نے کفار کی سینتیس افواج کے ساتھ مقابلہ کیا اور ان کو ایسی عبرتناک شکست دی کہ وہ اپنی خفت مٹانے کے لیے مذاکرات کی میز پر ناک رگڑتا ہوا نظر آیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں ان کو مردہ نہ کہو وہ زندہ ہیں اور اپنے ربّ کی جناب سے رزق پاتے ہیں جس کا تمہیں کوئی شعور نہیں۔۔۔
جبکہ دہشت گرد کی تعریف یہ ہے کہ وہ اپنے ہی ملک میں بے گناہ انسانوں کا خون بہائے اور سلطنت کے قوانین کے خلاف اس کو کمزور کرنے کی کوشش کرے جس کی وجہ سے امن و امان تباہ ہوجائے ملک کی معیشت کا پہیہ رک جائے اور ملک کے باشندے خود کو غیر محفوظ سمجھنے لگیں۔ پاکستان میں ایسی دہشت گردانہ کاروائیوں کی ہزاروں وارداتیں ہو چکی ہیں مگر کہیں سے بھی یہ ثابت نہیں ہوا کہ اس دہشت گردی کے تانے بانے اسامہ بن لادن سے جاکر ملتے ہیں بلکہ ملک کے اندر ہی دہشت گردی کرنے والوں نے اس ملک کی بڑی بڑی سیاسی جماعتوں کے نام افشا کیے ہیں کہ وہ ان کے کہنے اور ایما پر دہشت گردی کرتے رہے ہیں لیکن ان بڑی سیاسی جماعتوں پر کوئی ہاتھ ڈالنے والا نہیں اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس کام کے لیے
ان بڑی سیاسی جماعتوں کے تانے بانے بھی باہر سے ہی جوڑے جا سکتے ہیں کہ جن کے ایما پر اندرونی دہشت گردوں کو استعمال کر کے بے گناہ انسانوں کے خون سے ہولی کھیلی جاتی رہی لیکن افسوس کہ آج وہی بڑی سیاسی جماعتیں اسامہ بن لادن کو وزیر اعظم پاکستان عمران خان کی طرف سے شہید کہنے پر سیخ پا ہو رہی ہیں حالانکہ ان کی پول تو ملک کے اندر بسنے والے دہشت گرد کھلے عام کھول رہے ہیں۔ اسامہ بن لادن دہشت گرد تھا یا شہید اس کا ایک زاویے سے اور بھی جائزہ لیا جا سکتا ہے کہ جس غدار وطن شکیل آفریدی کی مخبری کے باعث اسامہ بن لادن کو شہید کیا گیا اس کو امریکا کے حوالے بہت دبائو کے باوجود نہیں کیا گیا کیونکہ سب جانتے ہیں کہ کون حق پر ہے اور کون ناحق اگر اسامہ واقعی دہشت گرد ہوتا تو امریکا تو کیا خود پاکستان شکیل آفریدی کو تمغوں سے نواز دیتا کہ اس نے ایک دہشت گرد کو پکڑوانے میں مدد کی لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا بلکہ جو کچھ ہوا اس کو اس کے برعکس ہی کہا جا سکتا ہے۔
صرف اغیار کو خوش کرنے کے لیے بلا سوچے سمجھے اسامہ کو دہشت گرد قرار دینا انصاف کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتا ہاں بعض سیاسی جماعتوں کے حکومت حاصل کرنے کے لیے ہر حد سے گزرجانے کا تقاضا ضرور کرتے ہیں کون نہیں جانتا کہ آج وہ شخص اسمبلی میں کھڑا ہو کر اسامہ کو شہید کہنے پر ماہی بے آب کی طرح تڑپ رہا تھا جس کی پارٹی کل تک اس کو مجاہد اعظم کہتی نہیں تھکتی تھی جبکہ دوسری جماعت کا تو کہنا ہی کیا وہ تو مندروں میں جاکر بتوں کی پرستش کرنے بتوں کو دودھ پلانے اور بھوجن کھانے سے بھی دریغ نہیں کرتی۔ ایسے لوگ اقتدار کے کس قدر بھوکے ہو سکتے ہیں یہ عام لوگوں کو معلوم بھی نہیں کہ اقتدار حاصل کرنے کے لیے کس حد تک جا سکتے بلکہ گر سکتے ہیں۔ یہی نہیں دہشت گردیاں بھی کئی قسم کی ہوتی ہیں ایک وہ جو انسانوں کو خون میں نہلادے، دوسری معاشی دہشت گردی کہ انسانوں کا جینا ہی حرام کردے، تیسری وہ جو عوام کے خزانے پر روز ڈاکے ڈالے اور سارا ہی بجٹ جو عوام کی خدمت کے لیے اس کے حوالے کیا گیا تھا مختلف سسٹم کے تحت کھا لیا جائے۔ دنیا میں شاید پاکستان واحد ملک ہے جو کسی سسٹم کے تحت چلنے کے بجائے کرپشن سسٹم پر چلتا ہے اور ایک نہیں متعدد سسٹم متعارف کرائے جا چکے ہیں جن میں اومنی سسٹم زرداری سسٹم اب ایک نیا قناصرو سسٹم جبکہ پنجاب وغیرہ میں منی لانڈرنگ سسٹم بے نامی اکائونٹس سسٹم آف شور سسٹم لیکن یہ ایک معجزے سے کم نہیں کہ جس ملک کو لوٹنے کے بے شمار سسٹم پوری طرح کام کر رہے ہوں اور قوم کے اربوں کھربوں کے اثاثے چوری کیے جا رہے ہوں وہ ملک بہتر سال تک قائم بھی رہے یہ بھی دہشت گردی کی بہت بڑی مثال ہے۔ ملک میں جتنے بھی دہشت گرد ہیں انہوں نے اپنی کاروائیوں میں افغان طالبان اور اسامہ بن لادن کا خاص طور پر کبھی ذکر تک نہیں کیا کہ ان کے ایما پر انہوں نے بم دھماکے کیے یا بے گناہوں کا خون بہایا مگر پھر بھی اسامہ بن لادن دہشت گرد ہے۔ اصل میں پاکستان کی سیکولر پارٹیوں کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ یہ فیصلہ کریں کہ کون دہشت گرد ہے اور کون شہید یہ فیصلہ ان کے وہ آقا کرتے ہیں جو ان کو حکومت دلانے کی لالچ میں بہت سے ملک دشمن کام بھی لیتے ہیں اور وہی ان کے منہ میں الفاظ اور جملے بھی ڈالتے ہیں جن کی بازگشت صاف سنائی بھی دیتی ہے اور دکھائی بھی دیتی ہے۔ ہم نے دونوں طرح کے تعارف پیش کرنے کی کوشش کی ہے اب یہ اہل ایمان اور اہل پاکستان کا کام ہے کہ وہ فیصلہ کریں کہ اسامہ بن لادن دہشت گرد تھا یا شہید۔