کراچی کو ادھیڑنے والے ادارے

324

کراچی میں گزشتہ کئی روز سے بلدیاتی اور دیگر شہری ادارے سڑکیں کھودنے اور کھود کر غائب ہونے کا کام کر رہے ہیں جس کے نتیجے میں آئندہ چند روز میں آنے والی بارش کے دوران یہ ٹوٹی ہوئی سڑکیں موت کے گڑھے بن جائیں گے۔ شہر کے بے اختیار میئر وسیم اختر کو پتا بھی نہیں کہ کہاں کہاں سڑکیں کھود دی گئی ہیں۔ وہ تو اس پر بھی کہیں گے کہ ہمارے پاس فنڈز نہیں اس لیے ہم تو مرمت نہیں کر سکتے۔ وہ بارش کے دوران کسی بھی حادثے کا ذمے دار سندھ حکومت کو قرار دیں گے اور سندھ حکومت میئر کراچی کو پھر ایم کیو ایم پیٹرول قیمتوں میں اضافے اور بجٹ کے خلاف نمائشی احتجاج کے طرح کا مظاہرہ کرکے سبکدوش ہو جائے گی۔ لیکن سڑکوں کا اس طرح توڑا جانا اور گڑھے چھوڑ دینا بتا رہا ہے کہ معاملہ صرف نااہلی کا نہیں ہے۔ جوں ہی بارش آئے گی حکومت سندھ اور بلدیہ کراچی خصوصی فنڈز جاری کریں گے اور اس کے ذریعے ان سڑکوں کی مرمت شروع کی جائے گی اور حسب روایت کہیں مرمت ہو جائے گی اور کہیں نہیں ہوسکے گی۔ لیکن کیا میئر کراچی اور حکومت سندھ اس قانونی ضرورت اور طریقۂ کار سے نا واقف ہیں کہ کسی شہری یا ادارے کو کوئی سڑک توڑنی یا کاٹنی ہو تو وہ اس کی مرمت کے تخمینے کے مطابق روڈ کٹنگ چالان جمع کراتا ہے اس کے بغیر کوئی سڑک کاٹنا غیر قانونی ہوتا ہے لہٰذا اگر میئر یا حکومت سندھ فنڈز کی قلت کا بہانہ بنائیں یا خصوصی فنڈ اس مد میں خرچ کر کے رقم ٹھکانے لگانے کی کوشش کریں تو سمجھ لیا جائے کہ گھپلا ہے۔ گلستان جوہر بلاک 15 میں تو تماشا ہو گیا۔ ڈیڑھ سال سے ٹوٹی ہوئی سڑک کی مرمت پی ٹی آئی کے لیڈروں کے بینرز کے ساتھ بنائی گئی اور اگلے ہی روز اسے کھود کر کوئی پائپ لائن ڈالی یا نکالی جا رہی ہے۔ یہ کام کرنے والے شہری ادارے کا بھی کس کو علم نہیں اسے بلدیہ شرقی کی نااہلی کہیں گے یا پی ٹی آئی کا جھنڈا لہرانے والے رکن قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کی ملی بھگت لیکن نقصان عوام کا ہو رہا ہے۔