وفاقی اور صوبائی بجٹ: تعلیم اور صحت نظر انداز

801

ماہ جون کا اختتام ہونے والا ہے ملکی معیشت کے لیے یہ مہینہ اس لیے اہم ہے کہ اس میں وفاقی اور صوبائی بجٹ پیش کیے جاتے ہیں اور یوں کھربوں کی باتیں ہوتی ہیں نئے نئے منصوبوں اور اسکیموں کا اعلان ہوتا ہے کچھ نئے ٹیکس لگائے جاتے ہیں کچھ میں کمی کردی جاتی ہے۔ عوام کی فلاح وبہبود، غربت میں کمی، روزگار کی فراہمی، تعلیم، صحت، سیوریج، صاف پانی کی فراہمی میں سہولتوں کا ذکر ہوتا ہے۔ حکومت ان بجٹوں کو عوام دوست، کسان دوست اور تاجر دوست قرار دیتی ہے جب کہ اپوزیشن کے اراکین چاہے قومی اسمبلی میں ہوں یا صوبائی اسمبلیوں میں اجلاس اٹینڈ کررہے ہیں سب بجٹ کے دوران شور شرابا کرتے ہیں۔ حکومت کے خلاف نعرے لگاتے ہیں، بجٹ کی کاپیاں جو ان کی ٹیبل پر پڑی ہوتی ہیں پھاڑ کر پھینک دیتے ہیں اور پھر شور مچاتے ہوئے اسمبلی ہال سے باہر چلے جاتے ہیں لیکن یہ سارے لوگ اجلاس میں حاضری کا ڈیلی الائونس بھی لیتے ہیں۔ ملک کے دور دراز علاقوں سے سفر کرکے آنے کا ٹریول الائونس بھی لیتے ہیں، بعض معزز اراکین تو اتنے محب وطن ہوتے ہیں کہ وہ اسمبلی میں جاتے ہی نہیں صرف حاضری رجسٹر پر دستخط کرکے اپنا الائونس وصول کرلیتے ہیں کیوں کہ وہ معزز منتخب عوام کے نمائندے ہیں۔
یوں تو بجٹ چاہے وفاقی ہو یا صوبائی آنے والے سال کے لیے آمدن و اخراجات کا تخمینہ ہوتا ہے لیکن اس سے بجٹ بنانے والوں کی ترجیحات، احساسات اور خیالات کا اندازہ ہوتا ہے۔ وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ چاہے کتنا ہی عوام دوستی، بنیادی سہولتوں کی فراہمی اور غریبوں کے درد کا راگ الاپتے رہیں بجٹ دستاویز سے صاف پتا چلتا ہے کہ ان کی ترجیح اور دلچسپی کیا ہے۔ حکومت کا یہ بھی کہنا ہے کہ کورونا وائرس کے پھیلائو کے باعث ملکی معیشت کو بڑے مسائل درپیش ہیں۔ ہمارے پاس وسائل کی کمی ہے ہم بہت کچھ دینا چاہتے تھے مگر دے نہیں سکتے۔ مگر وہ یہ نہیں بتاتے کہ اس دوران ورلڈ بینک نے اپریل میں 200 ملین ڈالر اور مئی میں 500 ملین ڈالر ان حالات سے نمٹنے کے لیے پاکستان کو دیے ہیں اسی طرح ایشیائی ترقیاتی بینک (ADB) نے بھی 300 ملین ڈالر پاکستان کو دینے کا اعلان کیا ہے۔ دوسری طرف پاکستان کے سر پر جو بیرونی قرضے مسلط ہیں ان کا ایک حصہ جو دسمبر 2020ء تک ادا کرنا تھا اس میں سے 1.8 ارب ڈالر کی ادائیگی موخر کردی گئی ہے۔
بات ہورہی تھی بجٹ میں ترجیحات اور دلچسپی کی، تعلیم و صحت دو اہم ترجیحات ہیں۔ دنیا بھر میں بجٹ پیش کرتے وقت حکومت کے سامنے ہوتی ہیں۔ انسانی وسائل کی ترقی (Human development) ایک اہم معاشی و سماجی پہلو ہے جس سے عوام کی مجموعی حالت کا پتا چلتا ہے اس کی پیمائش کے لیے دنیا بھر میں ایک اسکیل ہے جسے انسانی ترقی کا اشاریہ (HDI) کہا جاتا ہے جس سے صاف طور پر یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ ایک ملک میں رہنے والوں کی سماجی، معاشرتی اور معاشی حالت کا کیا معاملہ ہے پاکستان کا 189 ممالک کی فہرست میں 152 نمبر ہے یعنی 151 ملک پاکستان سے آگے ہیں جس میں سائوتھ ایشیا کے ممالک بھی شامل ہیں کیوں کہ اس میں بنگلادیش کا 133، انڈیا 129 اور سری لنکا 79 نمبر پر ہے۔ اس بدترین صورت حال میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وفاقی اور صوبائی بجٹوں میں تعلیم و صحت پر زیادہ توجہ دی جاتی اور زیادہ رقم مختص کی جاتی لیکن تمام ہی صوبوں بشمول وفاقی حکومت نے انہیں نظر انداز کیا گیا ہے۔ ہائر ایجوکیشن کا شعبہ جو وفاقی حکومت کے پاس ہے اس میں صرف 68 ارب روپے رکھے گئے ہیں اس سے تو یونیورسٹیاں اپنے اساتذہ اور عملے کی تنخواہیں بمشکل پوری کرسکیں گی۔ یونیورسٹیوں کو اصل کام جو ترقی، تحقیق اور اختراع ہے اور اس سلسلے میں لیبارٹریوں کو رقم درکار ہوتی ہے وہ کہاں سے آئے گی۔
صوبہ سندھ نے تو کمال ہی کردیا۔ اس صوبے کا مجموعی بجٹ 1241 ارب روپے کا ہے جس میں سے 908 ارب روپے غیر ترقیاتی کاموں کے لیے ہیں جب کہ تعلیم کے لیے 23 ارب اور صحت کے لیے 28 ارب رکھے گئے۔ پورے صوبے میں جہاں ہزاروں اسکولز اور کالجز ہیں اساتذہ اور عملے کی تنخواہیں، عمارتوں کی بہتری اور مرمت، کالجوں میں لیبارٹریز میں سازوسامان کے لیے یہ رقم قطعی ناکافی ہے اس طرح صحت کے لیے 28 ارب روپے نہ ہونے کے برابر ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ صحت اور تعلیم کے لیے یہ رقم بلوچستان اور خیبر پختون خوا سے بھی کم ہے۔ صوبہ پنجاب کا کل بجٹ 2240 ارب روپے کا ہے آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے کا صحت کا بجٹ صرف 33 ارب روپے ہے جو تقریباً 3 ارب ماہانہ ہے۔ کیا پنجاب بھر میں پھیلے ہوئے اسپتالوں اور ڈسپنسریوں کے لیے یہ رقم کافی ہوگی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ باوجود بیرونی امداد ملنے کے پاکستان میں عوام سرکاری اسپتالوں میں دربدر کی ٹھوکریں کھاتے رہیں گے نہ انہیں دوائیاں ملیں گی اور نہ ہی وارڈ میں کوئی سہولت ہوگی اور سرکاری اسکولوں میں جانور بندھے رہیں گے اور بچے درخت کے نیچے چٹائی پر بیٹھ کر پڑھیں گے۔