اللہ تعالیٰ کا کریمانہ اصول

650

مولانا محمد نجیب قاسمی

سیدنا عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ نبی اکرمؐ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے نیکیاں اور برائیاں لکھیں اور پھر ان کی وضاحت فرمائی کہ جو آدمی کسی نیکی کا ارادہ کرتا ہے، مگر اس کو کر نہیں پاتا، اللہ تعالیٰ اس کی ایک کامل نیکی لکھ دیتے ہیں اور اگر ارادہ کرکے اس کو کر گزرتا ہے تو اللہ تعالیٰ دس نیکیوں سے لے کر سات سو گنا تک، بلکہ اس سے بھی کئی گنا زیادہ نیکیاں اس کی لکھ دیتے ہیں اور اگر وہ برائی کا ارادہ کرتا ہے، مگر اس کو کرتا نہیں (اللہ کے خوف سے) تو اللہ تعالیٰ اس کی بھی ایک کامل نیکی لکھ دیتے ہیں اور اگر وہ ارداہ کرکے اس کو کرلیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی ایک برائی لکھ دیتے ہیں۔ (بخاری و مسلم)
ایک برائی پر ایک، لیکن اچھائی پر سات سو گنا اجر
محسن انسانیت نبی اکرمؐ کے فرمان کا خلاصہ یہ ہے کہ نیک عمل کا ارادہ کرنے پر بھی ایک نیکی ہے اور گناہ کا ارادہ کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے خوف سے اس گناہ سے بچنے پر بھی ایک نیکی ملتی ہے۔ ایک گناہ کرنے پر صرف ایک برائی تحریر کی جاتی ہے، لیکن ایک نیک عمل کی ادائیگی پر دس گنا سے سات سو گنا تک، بلکہ خلوص وللہیت کے جذبہ سے سرشار ہو کر اس سے بھی زیادہ بندہ اجر وثواب کا مستحق بن سکتا ہے۔
انسان کے اعمال کی اقسام
پہلی قسم وہ ہے جو انسان کے صرف دل میں آئے۔ ظاہر ہے کہ انسان اس پر قابو رکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ لہٰذا اس پر کوئی اجر وثواب یا عذاب نہیں ہے، یعنی اگر کسی شخص کے صرف دل میں کسی اچھے یا بُرے کام کے کرنے کی بات آئی، لیکن کوئی ارادہ نہیں ہوا تو اس پر نہ کوئی اجر وثواب ہے اور نہ ہی کوئی پکڑ۔
اگر نیک کام کرنے کی بات دل میں آئی اور اس کا ارادہ بھی ہو گیا تو وہی حدیث میں مذکور ہے کہ کسی شخص نے نیک کام کے کرنے کا ارادہ کیا، مگر اس پر عمل نہیں کرسکا تو اللہ تعالیٰ اس پر ایک نیکی کا ثواب عطا فرمائے گا۔ مثلاً کسی شخص نے ارادہ کیا کہ وہ صدقہ کرے گا، مگر پھر وہ صدقہ نہیں کرسکا تو وہ شخص ارادہ کرنے پر بھی ایک نیکی کے اجر وثواب کا مستحق بنے گا۔
اگر کسی شخص نے ارادہ کرنے کے بعد نیک کام کر لیا تو پھر اس کو دس گنا سے سات سو گنا بلکہ اس سے بھی زیادہ اجر وثواب ملے گا۔
اگر کسی شخص نے برائی کا ارادہ کیا، مگر اس نے اللہ کے خوف کی وجہ سے اس برائی سے اپنے آپ کو بچا لیا تو اس پر بھی اللہ تعالیٰ ایک نیکی عطا فرمائے گا۔ مثلاً یتیم کا مال ہڑپ کرنے کا ارادہ کیا، مگر اللہ کا خوف ِاس ارادہ کی تکمیل سے مانع بن گیا تو اُسے اللہ کے خوف کی وجہ سے اس برائی سے بچنے پر ایک نیکی ملے گی۔ لیکن اللہ کے خوف سے نہیں بلکہ اس گناہ پر قدرت نہ ہونے کی وجہ سے وہ گناہ نہیں کرسکا تو پھر وہ اس فضیلت کا مستحق نہیں ہوگا، بلکہ اس کے نامہ اعمال میں ایک برائی لکھی جائے گی۔ مثلاً ایک شخص ڈانس پارٹی میں شرکت کے لیے جارہا تھا، مگر راستے میں گاڑی خراب ہونے کی وجہ سے اس میں شریک نہیں ہوسکا تو اس گناہ کے ارتکاب نہ کرنے کے باوجود اس کے نامہ اعمال میں ایک برائی لکھی جائے گی۔
اگر کسی شخص نے گناہ کا ارتکاب کر لیا تو اس کے نامہ اعمال میں ایک برائی لکھی جائے گی، جس نوعیت کا گناہ ہوگا اسی نوعیت کی سزا بھی ملے گی۔
اعمال صالحہ پر اجر وثواب کی کثرت کیوں؟
گزشتہ اُمتوں کے مقابلہ میں آخری نبی سیدن محمد مصطفیؐ کی اُمت کے لوگوں کی عمریں بہت کم ہیں، جیسا کہ نبی اکرمؐ نے ارشاد فرمایا: میری اُمت کے لوگوں کی عمریں 60 سے70 سال کے درمیان ہیں۔ (ترمذی وابن ماجہ) پہلی اُمتوں کے اعمال کی برابری کے لیے اللہ تعالیٰ نے اس امت کے افراد کے لیے نیک اعمال کا اجر وثواب بڑھایا، چنانچہ ایک نیکی پر دس گنا سے لے کر سات سو گنا، بلکہ اس سے بھی زیادہ اجر وثواب کا وعدہ کیا گیا، جیسا کہ پوری انسانیت کے نبی کا فرمان بخاری ومسلم ودیگر کتب حدیث میں مذکور ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بھی اپنے پاک کلام میں متعدد مرتبہ نیکی پر اجر وثواب کی کثرت کے متعلق اصول کو بیان فرمایا ہے۔