افکار سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ

589

آپس کی اصلاح اور اس کا طریقہ
میں آپ کو یہ نصیحت بھی کرتا ہوں کہ آپ اپنی اصلاح کے ساتھ آپس میں بھی ایک دوسرے کی اصلاح کریں۔ جو لوگ خدا کی خاطر کلمہ حق کی سربلندی کے لیے ایک جماعت بنیں انہیں ایک دوسرے کا ہم درد و مددگار اور غم خوار ہونا چاہیے۔ انہیں یہ سمجھنا چاہیے کہ وہ اپنے مقصد عظیم میں کامیاب نہیں ہوسکتے جب تک کہ ان کی جماعت بحیثیت مجموعی اخلاق اور نظم کے لحاظ سے مضبوط نہ ہو۔ اور اس احساس کا نتیجہ یہ ہونا چاہیے کہ وہ سب ایک دوسرے کی تربیت میں مددگار بنیں اور ان میں سے ہر ایک دوسرے کو سہارا دے کر خدا کی راہ میں آگے بڑھانے کی کوشش کرے۔ اسلام میں اجتماعی تزکیے کا طریقہ یہی ہے۔ میں گرتا نظر آؤں تو آپ دوڑ کر مجھے سنبھالیں اور آپ لغزش کھا رہے ہوں تو میں بڑھ کر آپ کا ہاتھ تھام لوں۔ مادی دنیا میں جب لوگ ایک دوسرے سے لین دین کرتے ہیں تو مجموعی طور پر سب کی خوش حالی میں اضافہ ہوتا ہے۔ اسی طرح اخلاق و روحانیت کی دنیا میں بھی جب یہ امداد باہمی اور داد و ستد کا طریقہ چل پڑتا ہے تو پوری جماعت کا سرمایہ بڑھتا چلا جاتا ہے۔
باہمی اصلاح کا طریقہ یہ ہے کہ جس شخص کی کوئی بات آپ کو کھٹکے، یا جس سے کوئی شکایت آپ کو ہو، اس کے معاملے میں آپ جلدی نہ کریں، بلکہ پہلے اسے اچھی طرح سمجھنے کی کوشش کریں۔ پھر اولین فرصت میں خود اس شخص سے مل کر تخلیہ میں اس سے بات کریں۔ اس پر اگر اصلاح نہ ہو تو معاملہ آپ کی نگاہ میں کچھ اہمیت رکھتا ہو تو اسے اپنے علاقے کے امیر جماعت کے نوٹس میں لائیں۔ وہ پہلے خود اصلاح کی کوشش کرے، اور پھر ضرورت ہو تو جماعت کے اجتماع میں اسے پیش کرے۔ اس پوری مدت میں اس معاملے کا ذکر غیرمتعلق لوگوں سے کرنا اور شخص متعلق کی غیرموجودگی میں اس کا چرچا کرنا صریحاً غیبت ہے، جس سے قطعی اجتناب کرنا چاہیے۔
(ہدایات، از سید مودودیؒ، 1951 میں اجتماع عام کے اختتامی اجلاس میں دیے گئے خطبے سے مقتبس)
٭…٭…٭
رمضان کے بعد پھر بے قیدی
یہ کیا ماجرا ہے کہ رمضان بھر میں تقریباً 360 گھنٹے کی عبادت کرنے کے بعد جب آپ فارغ ہوتے ہیں تو اس پوری عبادت کے تمام اثرات شوال کی پہلی تاریخ ہی کو کافور ہو جاتے ہیں؟ ہندو اپنے تہواروں میں جو کچھ کرتے ہیں وہی سب آپ عید کے زمانے میں کرتے ہیں۔ حد یہ ہے کہ شہروں میں تو عید کے روز بدکاری اور شراب نوشی اور قِمار بازی تک ہوتی ہے۔ اور بعض ظالم تو میں نے ایسے دیکھے ہیں کہ جو رمضان کے زمانے میں دن کو روزہ رکھتے ہیں اور رات کو شراب پیتے اور زنا کرتے ہیں۔ عام مسلمان خدا کے فضل سے اِس قدر گڑے ہوئے تو نہیں ہیں، مگر رمضان ختم ہونے کے بعد آپ میں سے کتنے ایسے ہیں جن کے اندر عید کے دوسرے دن بھی تقویٰ اور پرہیزگاری کا کوئی اثر باقی رہ جاتا ہو؟
خدا کے قوانین کی خلاف ورزی میں کون سی کسر اُٹھا رکھی جاتی ہے؟
نیک کاموں میں کتنا حصہ لیا جاتا ہے؟
اور نفسانیت میں کیا کمی آ جاتی ہے؟‘‘
(خطبات)