خوشامد و چاپلوسی کا وبال

3000

مفتی محمد وقاض رفیع

خوشامد و چاپلوسی، یعنی کسی کے منہ پر اُس کی جھوٹی تعریف بیان کرنا اخلاقی پستی، گراوٹ اور ذلت کی علامت ہونے کے ساتھ ساتھ جھوٹ کی بھی ایک قسم ہے۔ جس شخص کی جھوٹی تعریف کی جاتی ہے اُس کے لیے تو ہلاکت وتباہی کا سامان ہو ہی جاتا ہے، لیکن چاپلوسی کرنے والا شخص خود تین بڑے گناہوں کا مرتکب ہوتا ہے۔ایک تو یہ کہ وہ ایسی تعریف کرتا ہے جو واقع کے مطابق نہیں ہوتی یہ جھوٹ ہے۔ دوسرے یہ کہ وہ منہ سے جو تعریف کرتا ہے اُس کو اپنے دل میں خود درست نہیں سمجھتا، یہ نفاق ہے۔ تیسرے یہ کہ اپنے ذاتی مفاد کی خاطر کسی کی خوشامد کرکے اُس کو فخر وغرور میں مبتلا کرتا ہے۔ یہ امر بالمعروف کے خلاف ہے۔
چنانچہ خوشامد و چاپلوسی اور جھوٹی تعریف سے دوسرے شخص کے لیے تباہی و بربادی کا سامان ہوجاتا ہے اور اُس میں دو برائیاں پیدا ہوجاتی ہیں۔ ایک غرور و تکبر اور دوسرے اپنی نسبت غلط فہمی۔ اپنی تعریف وتوصیف سن کر، غلط فہمی سے، وہ خوش فہمی میں مبتلا ہوجاتا ہے، جس سے آگے چل کر فخر و غرور اور ناز وتکبر جیسی برائیاں اُس میں جنم لیتی ہیں اور وہ ’’ہم چو ما دیگرے نیست‘‘ کے مفروضے پر عمل پیرا ہوکر تمام لوگوں کو حقارت و نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور اپنے آپ کو سب سے بالا و برتر تصور کرتا ہے۔
زمانۂ قدیم سے دُنیا کے بادشاہوں، حکم رانوں اور اربابِ اقتدار کی یہ عادت اور رسم چلی آرہی ہے کہ اُن کی منہ پر اگر کسی نے ہلکی اور ذرّہ سی بھی سچی اور حق بات اپنے منہ سے اگل دی تو فوراً اُس کی گردن اُڑا کر اسے موت کے گھاٹ اُتار دیا جاتا تھا۔ اور اگر کسی نے ذرّہ سی بھی اُن کی خوشامد وچاپلوسی اور جھوٹی تعریف کردی تو بادشاہ نے اسے یک جنبش قلم موت کی آغوش سے نکال کر آزاد کردیا۔
ذکر کیا جاتا ہے کہ حجاج بن یوسف کے پاس ایک خارجیہ عورت لائی گئی۔ حجاج اُس سے گفتگوکرتا رہا، مگر عورت نے نہ اُس کی طرف نظر اُٹھائی، نہ اُس کی بات کا جواب دیا۔ حجاج کے خدام نے عورت سے کہا کہ امیر تجھ سے گفتگو کر رہا ہے اور تو رُخ پھیرے ہوئے ہے؟ عورت نے کہا مجھے ایسے شخص کی طرف نظر کرنے سے شرم آتی ہے، جس کی طرف خدا نظر نہیں کرتا۔ حجاج نے اُس کے قتل کا حکم دیا اور وہ اسی وقت قتل کردی گئی۔ (نفحۃ العرب)
قرآنِ مجید واحادیث نبویہ میں خوشامد و چاپلوسی اور جھوٹی تعریف کرنے کی بڑی سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں۔ چنانچہ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’ترجمہ: یہ ہرگز نہ سمجھنا کہ جو اپنے کیے پر بڑے خوش ہیں اور چاہتے ہیں کہ اُن کی تعریف اُن کاموں پر بھی کی جائے، جو اُنہوں نے کیے ہی نہیں، ایسے لوگوں کے بارے میں ہرگز یہ نہ سمجھنا کہ وہ عذاب سے بچنے میں کامیاب ہوجائیں گے! اُن کے لیے دردناک سزا (تیار) ہے‘‘۔ (آلِ عمران :1/188)
اِن آیات کا شانِ نزول اگرچہ خاص ہے، جس میں یہودیوں اور منافقوں کے ایک مخصوص گروہ کا نقشہ کھینچا گیا ہے اور اُن کے انجام بد کی اُن کو خبر دی گئی ہے، لیکن اِن آیات کے عموم میں اُن تمام لوگوں کو مراد لیا گیا ہے جو اپنے بارے میں کسی کے منہ سے خوشامد و چاپلوسی اور جھوٹی تعریف سن کر عجب وخود پسندی کا شکار ہوکر تکبر وشیخی اور غرور وناز میں مبتلا ہوجائیں۔ اور اپنے کیے ہوئے کاموں پر اترانے لگے اور نہ کیے ہوئے کاموں پر مدح وتعریف کو چاہنے لگیں کہ یہ ایسے گناہ ہیں کہ جن کی سزا اور عذاب سے بغیر توبہ واستغفار کے بچنا انسان کے لیے بڑا مشکل ہے۔ پھر اِس کا وبال صرف اِس شخص کی حد تک نہیں رہتا، بلکہ جس شخص نے خوشامد و چاپلوسی اور جھوٹی تعریف کرکے اِس کو عجب و خود پسندی کا شکار بناکر تکبر وغرور اور فخر وناز میں مبتلا کیا ہے اُس پر بھی اِس کا وبال پڑتا ہے۔
چنانچہ ایک حدیث مبارک میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ آپؐ نے ایک شخص کو دوسرے کی مبالغہ آمیز تعریف کرتے ہوئے سنا تو آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ تم نے اِس کو برباد کردیا۔ (صحیح بخاری)
اسی طرح ایک اور موقع پر ایک شخص نے دوسرے کی حد سے زیادہ تعریف کی تو آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ تم نے اپنے ساتھی کی گردن ماردی۔ اگر تم کو کسی کی تعریف ہی کرنی ہو تو یوں کہو کہ میں یہ گمان کرتا ہوں، بہ شرطے کہ اُس کے علم میں وہ واقعی ایسا ہی ہو۔ اور قطعیت کے ساتھ غیب پر حکم نہ لگایا جائے۔ (بخاری، مسلم، ابوداؤد)
ایک مرتبہ حضورِ اقدسؐ مسجد میں تشریف لے گئے تو دیکھا کہ ایک آدمی نماز پڑھ رہا ہے۔ آپ علیہ السلام نے دریافت فرمایا کہ یہ کون شخص ہے؟ ایک آدمی نے اُس کی بڑی تعریفیں کرنی شروع کردیں۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ اُس کو سنا کر مت کہو کہ اُس کو برباد ہی کردو! (الادب المفرد)
ایک مرتبہ ایک شخص نے سیدنا عثمان بن عفانؓ کے منہ پر اُن کی تعریف بیان کی، تو مقدادؓ نے اُس کے منہ میں خاک جھونک دی۔ اور فرمایا کہ رسولِ اکرمؐ کا ارشاد ہے کہ خوشامد کرنے والوں سے ملو تو اُن کے منہ میں خاک جھونک دیا کرو! (مسلم و ابو داؤد)
لہٰذا ہر مسلمان کو اِس بات کا خاص اہتمام کرنا چاہیے کہ وہ کسی کی خوشامد وچاپلوسی اور منہ پر اُس کی جھوٹی تعریف بیان نہ کیا کرے کہ اِس سے خود تو یہ متعدد گناہوں کے ارتکاب کا سبب بنے گا ہی، ساتھ میں جس کی خوشامد وچاپلوسی کی ہے اُس کے گناہوں کی نحوست اور بوجھ بھی اِس پر آکر پڑے گا اور خود اُس شخص کو بھی جس کی خوشامد و چاپلوسی کی گئی ہے اِس عمل بد سے جنم لینے والے گناہوں کا عذاب بھگتنا پڑے گا۔