راہ حق میں صحابیات کا کردار

1169

اُم حسن

اسلام کی تاریخ میں تبلیغ دین کے لیے مردوں کے ساتھ خواتین کا کردار بھی نمایاں ہے۔ قبولِ اسلام میں پیش آنے والی مشقتیں ہوں یا دین پر چلنے میں مجاہدات برداشت کرنے کا حوصلہ یا پھر دین پھیلانے کے لیے قربانیاں دینے کا وقت، مردوں کی طرح خواتین بھی ہر میدان میں اپنے دائرہ کار میں سرگرم نظر آئیں، حتی کہ اسلام کی خاطر جانوں کا نذرانہ پیش کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا۔
غم گسار جاں نثار بیوی
نبی کریمؐ کی رسالت کی تصدیق کا اولین شرف ایک عورت ہی کے حصے میں آیا ہے۔ پہلی وحی نازل ہونے کے بعد آپؐ پر اضطراری کیفیت طاری تھی، اس موقع پر خدیجہؓ نے نبی اکرمؐ سے جو تسلی بخش اور حوصلہ افزا کلمات کہے ان سے آپؐ کی طبیعت کا بوجھ بہت ہلکا ہوا۔ خدیجۃ الکبریٰؓکی زندگی فہم و فراست، حکمت وتدبر، خدمت واطاعت، رحم دلی اور غریب پروری کی عظیم مثال ہے۔ آپؐ کی بعثت کے بعد تقریباً نو سال زندہ رہیں۔ اس تمام مدت کے دوران اللہ کے رسولؐ کے ساتھ ہر طرح کے مصائب کو نہایت ہمت سے برداشت کیا، اپنے غیر مسلم رشتے داروں کے طعن و تشنیع اور ملامت سہی اور اپنا سارا مال تبلیغ دین میں لگادیا۔ کفارِ مکہ نے حضور اکرمؐ کو بنو ہاشم اور بنو مطلب سمیت شعب ابی طالب میں محصور کیا، ان لوگوں تک کھانے پینے اور دیگر ضروریات زندگی پہنچانے پر پابندی لگائی تو سیدنا خدیجہؓ بھی اس مصیبت میں آپؐ کے ساتھ تھیں۔ اس جان لیوا آلام و مصائب کا عرصے پورے تین برسوں پر محیط تھا، جسے آپ نے بڑے ہی صبر و استقامت کے ساتھ برداشت کیا، لیکن اس دوران غذائی کمی اور دیگر مصائب کا شکار ہوکر نہایت بیمار اور کمزور ہوگئیں، یہاں تک کہ جان جانِ آفریں کے سپرد کردی اور اس جہاں سے رخصت ہوئیں۔
امت کی فقیہہ
سیدہ عائشہ صدیقہؓ اپنی ہم عصر صحابیات میں سب سے زیادہ ذہین تھیں۔ آپ اپنی ذہانت، فطانت اور وسعت علمی کی بنا پر منفرد مقام رکھتی تھیں۔ آپ کے شاگردوں کی تعداد تقریباً آٹھ ہزار ہے، جب کہ آپ سے مروی احادیث کی تعداد2210 ہے۔ آپ خداداد ذہانت اور حیرت انگیز حافظے کی مالکہ تھیں۔ قرآن پاک کی حافظہ ہونے کے ساتھ آپ کو علم طب، قرآن و حدیث اور فقہی علوم پر بھی دسترس حاصل تھی۔ بڑے بڑے جلیل القدر صحابہ کرامؓ اپنے اختلافی مسائل کو آپ کے سامنے پیش کرتے تو آپ اپنی بصیرت اور وسعت علمی کی وجہ سے ان مسائل کو حل فرمادیتی تھیں۔
اسلام کی اول شہید خاتون
سیدہ سمیہؓ اسلام میں درجۂ شہادت پانے والی پہلی خاتون ہیں۔ آپ اپنے شوہر سیدنا یاسر بن عامر اور اپنے بیٹے عمار بن یاسرؓ کے ہمراہ ایمان لائی تھیں۔ اسلام کا یہ دور مصائب و آلام کا دور تھا۔ آپ کا تعلق غلام خاندان سے تھا، آپ ایک بوڑھی اور کمزور سی خاتون تھیں، اس کے باوجود آپ کو کفار کے شدید غیظ و غضب کا سامنا کرنا پڑا۔ شوہر اور بیٹے کے ساتھ آپ کو بھی لوہے کی زر ہیں پہنا کر مکہ کی گرم تپتی ہوئی ریت پر لٹانا، سینے پر بھاری پتھر رکھنا، کمر کو آگ کے انگاروں سے داغنا کفار مکہ کا معمول تھا۔ آپ کے پیچھے شریر بچوں کا لگادیا جاتا، جو آپ کو پتھر مارا کرتے تھے۔ ان تمام مصیبتوں کو سہنے کے باوجود آپ کے جذبہ ایمان میں ذرہ برابر لغزش پیدا نہ ہوئی۔ایک مرتبہ نبی اکرمؐ نے آپ کو اور آپ کے خاندان کو اس مصیبت میں مبتلا دیکھا تو فرمایا: ’’اے آل یاسر! صبر کرو، تمہارے لیے جنت کا وعدہ ہے‘‘۔ راہِ حق پر ان کے صبر و استقامت کو دیکھ کر ایک دن ابو جہل نے طیش میں آکر ان کو رسیوں سے باندھا، پھر ان کے پیٹ کے نچلے حصے میں برچھی گھونپی، جس سے خون کا فوارا پھوٹ پڑا، پہلے تکلیف کی شدت سے، پھر سارا خون بہہ جانے کے باعث ایسی نڈھال ہوئیں کہ دوبارہ اٹھ نہ سکیں۔ یوں مکہ کی ایک بوڑھی کمزور خاتون راہِ حق میں شہید ہوکر لاکھوں زور آور مردوں کو پیچھے چھوڑ گئیں۔
پیکرِ عزم و استقلال
نبی کریمؐ کے ہمراہ مدینہ منورہ کی جانب ہجرت کے وقت سیدنا ابو بکر صدیقؓ نے اپنی صاحبزادی اسماءؓ کو آپ کا راز دار بنالیا تھا۔ اس وقت آپ بہت کم عمر تھیں۔ جب کفار کو نبیؐ اور ابو بکر صدیقؓ کے مکہ مکرمہ سے ہجرت کر جانے کی خبر ملی تو ابو جہل سیدھا ابوبکر صدیقؓ کے گھر آیا اور اسماءؓ کو ڈرا دھمکا کر پوچھنے لگا کہ نبیؐ اور ابو بکر صدیقؓ، کس طرف گئے ہیں؟ عزم وہمت کی پیکر اس بچی نے کچھ نہ بتایا۔ اس پر ابوجہل نے آپ کے منہ پر اس زور سے طمانچہ مارا کہ آپ کے کان سے بالی ٹوٹ کر دور جاگری۔ جب تک حضور اکرمؐ اور ابوبکر صدیقؓ غارِ ثور میں رہے، آپ نہایت رازداری کے ساتھ ان دونوں کے لیے کھانا لے جاتی رہیں۔
جب حجاج بن یوسف کا دور آیا اور اس نے عوام پر ظلم کے پہاڑ توڑے تو بڑھاپے کے باوجود ایسی باہمت و بہادر تھیں کہ اس ظالم گورنر کو اس کے منہ پر کھری کھری سناتے ہوئے ذرا بھی نہ ڈریں۔ حجاج بن یوسف نے آپ کے بیٹے زبیر بن العوامؓ کو شہید کر کے ان کی لاش سولی پر لٹکادی تو آپ نے حجاج سے کہا: اے جابر سلطان! تو نے میرے بیٹے کی دنیا برباد کی، مگر اس نے تیری آخرت برباد کردی۔