نظام صلوٰۃ کا انہدام

2064

سید جاوید انور،نارتھ امریکا

آج اسلام کی عمارت کی آخری اینٹ (دواران تعمیر پہلی اینٹ) بھی نکل چکی ہے۔ تاریخ اسلامی میں پہلی بار ہوا کہ مساجد کئی ماہ تک بند کر دی گئیں اور وہاں مصلّیوں کو جانے سے روک دیا گیا۔ اور اب اجازت ملی ہے تو ریاست کے احکام کے مطابق ۱۔ صف میں دو فراد کے مابین دو میٹر کا فاصلہ رکھنا ہے، ۲۔ فیس ماسک (نقاب) لگانا ہے، ۳۔ مسجد میں جتنی نمازیوں کی گنجائش ہے اس میں ایک تہائی کو ایک وقت میں شامل کیا جاسکتا ہے۔ اور مساجد انتظامیہ کے احکام کے مطابق ۱۔ واش روم اور وضو خانے بند رہیں گے، یعنی سب کو گھر سے تیار ہو کر آنا ہے، ۲۔ سب کو اپنی جائے نماز لانا ہے، ۳۔ دروازے پر داخل ہونے سے پہلے ہاتھ صاف کرنے والا مائع (Sanitizer) استعمال کرنا ہے، ۴۔ جوتا پلاسٹک کے ایک بیگ میں رکھ کر اپنے ساتھ رکھنا ہے، ۵۔ ایک دروازے سے داخل ہونا ہے اور دوسرے دروازے سے نکلنا ہے، ۶۔ گاڑی پارکنگ کی سہولیات بند رہیں گی۔ وغیرہ وغیرہ
میرا علماء اور مفتیان کرام سے ایک سوال ہے کہ کیا ا س صورت میں جب کہ مساجد میں سنت کے احکام کے بجائے ریاست کے احکام کی پیروی کرنی ہے تو کیا ایسی جماعت سے انفرادی گھر کی نماز افضل نہیں جو ہم کم ازکم سنت کے احکام کے مطابق ادا کرتے ہیں؟ واضح ہے کہ اقیموالصلوٰۃ کا حکم جماعت کے ساتھ ہی ہے۔ ’’اور نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دیا کرو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ (مل کر) رکوع کیا کرو۔ (سورہ بقرہ آیت 43)‘‘ لیکن یہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ اللہ کے گھر میں غیر اللہ کے احکام کا قیام ہے نہ کہ اللہ کے احکام کا۔ یہ ایک ایسی بڑی بدعت اور شریعت سے اتنا بڑا انحراف ہے کہ اس کی تاریخ میں کوئی نظیر نہیں ملتی ہے۔
طاعون جیسی وبا کی حالت میں جس میں مریض کے بچنے کا بہت کم امکان تھا، اور یہ سب کے نزدیک ایک معلوم ’’حقیقت‘‘ تھی (سائنس کا علم)۔ اور اس وقت بھی ’’احتیاط‘‘ کا تقاضا تھا کہ نماز باجماعت نہ پڑھی جائے۔ اس کے باوجود صحابہ کرام ؓ بلاخوف طاعون، شریعت کے عین مطابق نماز پڑھتے رہے تھے۔ واضح رہے کہ کورونا کے ذریعہ سے موت کا امکان (بیمار ہونے کے بعد) صرف ڈیڑھ سے تین فی صد ہے۔
’’ابو عبیدہ بن الجراحؓ (جو امین الامت کے لقب سے جانے جاتے ہیں)، طاعون کی وجہ سے شہید ہو گئے، تو سیدنا معاذ بن جبلؓ امیر بنے، تو امیر بننے سے پہلے جب ابو عبیدہؓ زندہ تھے تو انہوں نے معاذؓ سے کہا کہ اے معاذؓ تم لوگوں کو نماز پڑھائو۔ سیدنا معاذؓ نے لوگوں کو نماز پڑھائی۔ پھر ابو عبیدہؓ کا انتقال ہو گیا۔ اس کے بعد معاذؓ نے تقریر کی۔ ابو عبیدہ بن الجراحؓ کے فضائل بیان کیے۔ پھر لوگ میدان میں جمع ہوئے، جنازہ لایا گیا، معاذؓ نے نماز جنازہ پڑھائی۔ قبر میں معاذ بن جبلؓ کے ساتھ، عمر وبن العاص اور ضحاک بن قیس اترے اور ان کی نعش کو بغلی قبر میں اتارا، اور باہر آکر مٹی ڈالی (حاکم فی المستدرک حوالہ حیات صحابہ، ازشیخ یوسف کاندھلوی)۔
متجدد امام آج کسی کی نماز جنازہ پڑھانے کے لیے تیار نہیں۔ اگر چند نوجوان امام اگر اس کام کے لیے آمادہ نہیں ہوتے تو یہاں مسلمانوں کی تجہیز و تکفین ناممکن تھی۔ واضح رہے کہ مسجد میں تالا لگا کر گھروں میں مقید ہونے کے باوجود نیویارک ٹرائی اسٹیٹ میں مسلمانوں کی ساڑھے تین ہزار سے زیادہ اموات ہو چکی ہیں۔
بعض جدیدعلماء ان افراد سے متاثر ہو کر جو سائنس کے ہیضے یا طاعون میں مبتلا ہیں، اپنے کو صحابہ کرامؓ سے زیادہ ’’باعلم‘‘ سمجھنے لگے ہیں۔ ان سے میری گزارش ہے کہ وہ پہلے اپنے دماغ کا علاج کرائیں۔ کیونکہ صحابہ کرامؓ العالم (اللہ سبحانہ تعالیٰ) کے براہ راستہ تعلیم یافتہ اور تربیت یافتہ رسول اللہؐ کے مکتب کے تعلیم یافتہ تھے۔ صحابہ کرامؓ سے زیادہ علم اور تفقہ کا دعویٰ کون کرسکتا ہے۔
ہیلتھ سائنس کا سب سے بڑا ادارہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن ہر روز اور ہر ہفتہ اپنے احکامات میں تبدیلی کرتا ہے۔ اس کی چیف سائنسدان ڈاکٹر مسز سومیا سوامی ناتھن نے گزشتہ ماہ این ڈی ٹی وی، انڈیا کے پرائم ٹائم میں رویش کمار کو انٹرویو دیا تھا۔ وہ ہر سوال کے جواب میں یہی کہتی تھیں کہ ’’انہیں (WHO) کو نہیں معلوم ہے‘‘۔ ’’یہ بات ابھی زیر مطالعہ ہے‘‘۔ ’’یہ معاملہ ابھی زیر تحقیق ہے‘‘۔ اب یہی ڈبلیو ایچ او ہے جو ساری دنیا میں چار ماہ لاک ڈاوْن کے بعد کہ رہا ہے کہ ’’نئی اسٹڈی کے مطابق کورونا وائرس کے وہ مریض جن میں مرض کی کوئی علامت نہیں ہے وہ مرض پھیلانے کا باعث نہیں ہیں‘‘۔ یعنی ان سے کسی کو مرض نہیں لگے گا۔ سائنس کے ہر آن بدلتے فیصلے، ان کی شعبدہ بازیوں، تکے بازیوں، اور سائنسی توہمات کی بنا پر شریعت کے محکمات نہیں بدل سکتے کیونکہ یہ احکام ’’العالم‘‘ اور ’’خالق‘‘ کی طرف سے ہیں۔ العالم اور خالق کی بات ہی اصل بات ہے۔ ان باتوں میں ایک مخلوق کی طرف سے کوئی اضافہ یا تبدیلی ہوتی ہے تو وہ جہل کا اضافہ ہے اور جہل کی تبدیلی ہے۔
جو متجدد علماء مسجد میں نماز کی پابندی اور اب دو میٹر دوری کی صف سے متعلق فتویٰ دے رہے ہیں وہ اللہ کی نہیں بلکہ سائنس اور ریاست کی پرستش کر رہے ہیں۔ ہمارا فرض ہے کہ ایسے علماء سے ’’سماجی دوری (social distancing) قائم رکھیں۔ ان علماء کی زیادتی یہ ہے کہ ریاست کے احکام اور اپنی خواہشات کے مطابق شریعت کے احکام اور نصوص کی ناک مروڑ رہے ہیں اور غیر متعلق احادیث اور روایات سے اپنی بات ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
صحیح البخاری میں ہے کہ: ’’شہداء پانچ قسم کے ہوتے ہیں۔ طاعون میں مرنے والے، پیٹ کے عارضے (ہیضے وغیرہ) میں مرنے والے اور ڈوب کر مرنے والے اور جو دیوار وغیرہ کسی بھی چیز سے دب کر مر جائے اور اللہ کے راستے میں (جہاد کرتے ہوئے) شہید ہونے والے اور آپ نے فرمایا کہ اگر لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ اذان دینے اور پہلی صف میں شریک ہونے کا ثواب کتنا ہے اور پھر اس کے سوا کوئی چارہ کار نہ ہو کہ قرعہ ڈالا جائے تو لوگ ان کے لیے قرعہ ہی ڈالا کریں‘‘۔
اس حدیث سے یہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ نماز باجماعت کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ طاعون کے خوف سے یہ متروک نہیں ہو سکتی جبکہ یہاں پہلی صف کے لیے دوڑنے کی بات ہورہی ہے۔
طاعون زدہ بستی کے حوالے سے سنت صرف یہ ہے کہ جہاں یہ پھیلی ہو وہاں کا سفر نہ کیا جائے اور جو لوگ اس بستی میں پھنس گئے ہوں وہاں سے نہ نکلیں۔ یہ کہیں نہیں کہا گیا ہے کہ طاعون زدہ بستی میں اذان اور نماز کا سلسلہ بند کرکے مساجد میں تالا ڈال دیا جائے اور لوگوں کو گھر میں قید کر دیا جائے یا نماز جماعت میں سماجی دوری قائم کی جائے۔ سیدنا عمر بن الخطابؓ اور عمر بن عبد العزیزؓ کے زمانہ میں طاعون کی وبا پھیلی تو مشروع نماز با جماعت کا اہتمام جاری رہا تھا۔ جو لوگ اپنے کو ان سے زیادہ عالم اور فقیہ سمجھنے لگے ہیں ان سے آپ سماجی دوری اختیار کر لیں۔ یہ لوگ آپ کا ایمان ضائع کر دیں گے۔ ان سے بچنے کے لیے سور کہف پابندی سے پڑھتے رہیں۔
امریکا کے اسلامک اسپیکنگ انڈسٹری کے آج کے سب سے مہنگے ریٹ کے ایک اسکالر نے سب سے پہلے مسجد بند کرکے چابی لہرا کر کہا کہ اگر مسجد آکر کوئی کورونا وائرس کا شکار ہوتا ہے اور وہ مر جاتا ہے تو اس کا ذمے دار وہ ہوں گے۔ گویا مسجد اللہ (المحیی و الممیت) کا گھر نہیں ان کے والد کا گھر ہے۔ نعوذ باللہ من ذلک۔
ایک جملہ جو مذہبی گروہوں کے مغلوب اور مرعوب اذہان کی طرف سے آتا ہے ریاست اور حکومت کے احکام و قوانین کی پیروی دین کا تقاضا ہے، اب یہ کثرت سے دہرایا جانے لگا۔ کینیڈا میں ہم جنس شادی قانوناً جائز ہے۔ اب کوئی دو مرد امام نکاح خاں کے پاس آئے گا تو ریاست کے قانون کی پیروی جو ’’دین کا تقاضا ہے‘‘ اس کے تحت اس کا نکاح کرایا جائے گا۔ جس وقت حکومت قانون بنا رہی ہوتی ہے تو دین کے اصل تقاضا کے تحت حکومت کو مشورہ دینے کی جرأت کسی امام اور عالم کو نہیں ہوتی۔ بلکہ جب قانون بن جاتا ہے تو اس قانون کو قبول کرنے کے لیے اسلام کو بدل دیتے ہیں۔ یہ معاملہ کسی ایک مسلک اور ایک گروہ تک محدود نہیں رہ گیا ہے۔ بلکہ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ اکثریت اسی رخ پر چل پڑی ہے۔
علامہ اقبال ؒنے کہا تھا کہ ’’مْلّا کو جو ہِند میں ہے سجدے کی اجازت ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد!‘‘ اب سجدے کی اجازت میں بھی ریاستی احکام کی پیروی کرنی ہے۔ جن لوگوں نے نظام صلوٰۃ پر راضی ہو کر دین کو مغلوب رکھنے اور رہنے پر اکتفا کر لیا تھا اب ان کو سوچنا چاہیے کہ مغلوب دین کی بالآخر کوئی چیز، کوئی علامت باقی نہیں رہتی ہے۔ اسی لیے اللہ نے اقیموا الصلوٰۃ سے پہلے اقیمو الدین کا حکم دیا تھا۔ یہ حکم مکی سورہ الشوریٰ میں دے دیا گیا تھا۔
’’اْس نے تمہارے لیے دین کا وہی طریقہ مقرر کیا ہے جس کا حکم اْس نے نْوحؑ کو دیا تھا، اور جسے (اے محمدؐ) اب تمہاری طرف ہم نے وحی کے ذریعہ سے بھیجا ہے، اور جس کی ہدایت ہم ابراہمؑ و اور موسیٰؑ اور عیسیٰؑ کو دے چکے ہیں، اِس تاکید کے ساتھ کہ ’’قائم کرو اِس دین کو‘‘ اور اْس میں متفرق نہ ہوجائو۔ (13 – 15)
دین کی مکمل اقامت اور دین کے نظام عدل و انصاف کے قیام کے بعد ہی نظام صلوٰۃ جو اسلامی امارت کی پہلی اینٹ ہے برقرار رہ سکتی تھی۔ دین کے غلبہ اور اقامت کی جدوجہد (جہاد) اللہ کے رسول اللہؐ کی سب سے بڑی سنت تھی اور یہ سنت متروک ہو چکی ہے جس کی وجہ سے آج ساری دنیا میں دین مغلوب ہے اور آج وہ نظام الصلوٰۃ کو بھی سامنے ٹوٹتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ حالانکہ دین کے غلبہ کی جدوجہد کرنے والوں کے ساتھ اللہ کی مدد تھی اللہ کا فرمان ہے کہ ’’وہی تو ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا ہے تا کہ اسے پْورے کے پْورے دین پر غالب کر دے خواہ مشرکین کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو‘‘۔ (سورہ صف، آیت: 9)
اور جب اہل حق کو غلبہ مل جائے تو کرنے کہ کام میں سر فہرست یہ ہے: ’’یہ (اہلِ حق) وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم انہیں زمین میں اقتدار دے دیں (تو) وہ نماز (کا نظام) قائم کریں اور زکوٰۃ کی ادائیگی (کا انتظام) کریں اور (پورے معاشرے میں نیکی اور) بھلائی کا حکم کریں اور (لوگوں کو) برائی سے روک دیں، اور سب کاموں کا انجام آ ہی کے اختیار میں ہے‘‘۔ (سورہ الحج، آیت: 41)
علامہ ابن خلدون فرماتے ہیں ’’سیاست اور حکومت مخلوق کی نگہداشت اور ان کے مفاد کی کفالت و ضمانت کا نام ہے۔ یہ سیاست اللہ کی نیابت ہے اس کے بندوں پر اسی کے احکامات نافذ کرنے کے کام ہیں‘‘۔ 1۔ عمارت الارض (زمین کو آباد کرنا اور عمرانی تمدن قائم کرنا)۔ 2۔ تنفیذ احکام اللہ (اللہ کے احکامات کو نافذ کرنا) اور 3۔ مکارمْ الشریعہ (اخلاق فاضلہ اختیار کرنا)۔ آگے چل کر لکھتے ہیں ہیں کہ ’’سیاست ان تدابیر کا نام ہے جن کی وجہ سے لوگ صلاح و مصلحت عامہ کے قریب ہوجائیں اور فساد و بگاڑ سے دور ہوجائیں‘‘۔
ثابت یہ ہوا کہ نماز جیسی عبادت جس کا ذکر قرآن حکیم میں کم و بیش سات سو (700) مقامات پر آیا ہے جن میں سے 80 مقامات پر صریحاً نماز کا حکم وارد ہوا ہے۔ اس کا نظام بھی دین کی غالب قوت والی ریاست کے بغیر برقرار نہیں رکھاجا سکتا۔
مسجد کی امامت کو برقرار رکھنا ہے تو سیاست کی امامت میں تبدیلی لانی پڑے گی۔ خادم حرمین شریفین سے لے کر خدام ’’جدید ریاست مدینہ‘‘ تک، مشرق سے مغرب اور شمال تا جنوب، سیاست کی امامت میں تبدیلی لائے بغیر نہ صلوٰۃ قائم ہو سکتا ہے اور نہ عدل، نہ زکوٰۃ کا قیام ہو سکتا ہے نہ سود کا خاتمہ، تعلیم بدل سکتی ہے نہ میڈیا، اخلاق بدل سکتا ہے اور نہ تمدن۔ اور آفات سے نجات ملے گی نہ عذاب سے۔
مسجد کی امامت سے نکل کر سیاست کی امامت کے لیے علمائے حق کو آگے آنا ہو گا۔ ان کے بغیر یہ کام ’’بالواسطہ‘‘ نہیں ہو سکتا ہے۔ یہ بات جتنی جلد معلوم ہو جائے، اتنا بہتر ہے۔