گدھے پھر بڑھ گئے

552

اقتصادی جائزہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گدھوں کی تعداد جو گزشتہ سال 54 لاکھ تھی اس سال بڑھ کر 55 لاکھ ہوگئی ہے۔ جب کہ گھوڑوں، خچروں اور اونٹوں کی تعداد میں اضافہ نہیں ہوا۔ البتہ پالتو جانوروں میں سب سے زیادہ اضافہ بکریوں کی تعداد میں ہوا ہے جو 21 لاکھ اضافے کے ساتھ 7 کروڑ 82 لاکھ ہوگئی ہیں۔ ہمیں یاد ہے کہ گزشتہ سال کی جائزہ رپورٹ میں بھی گدھوں کی تعداد میں اضافے کا ذکر تھا جس پر کئی قلم کاروں نے خامہ فرسائی بھی کی تھی کہ گدھا ہمارے بعض دوستوں کا پسندیدہ موضوع ہے۔ پاکستان میں پچھلے کئی سال گدھوں پر بہت سخت گزرے ہیں۔ ایک گروہ (گدھوں کا نہیں، انسانوں کا) گدھوں کو ذبح کرکے ان کی کھال ایکسپورٹ کررہا تھا اور ان کا گوشت پاکستانیوں کو کھلا رہا تھا۔ بالآخر پکڑا گیا تو گدھوں کو ریلیف ملا، تاہم قابل ذکر بات یہ ہے کہ گدھوں نے ابتلا کے اس دور میں بھی اپنی افزائش نسل پر توجہ برقرار رکھی اور اپنی تعداد میں کمی نہ آنے دی بلکہ اس میں کچھ اضافہ ہی کیا۔ جب کہ گھوڑے خچر اور اونٹ اپنی موجودہ تعداد ہی پر قانع رہے۔ حالاں کہ یہ تینوں جانور انسان کے جنم جنم کے ساتھی ہیں۔ جس زمانے میں یہ تیز رفتار گاڑیاں، ٹرینیں اور ہوائی جہاز نہیں تھے تو یہ گھوڑے اور اونٹ ہی تھے جو انسانوں کے کام آتے تھے۔ یہ وفادار جانور انسانوں کو اپنے اوپر سوار کرکے میلوں کا سفر کرتے اور انہیں ان کی منزل مقصود پر پہنچاتے تھے۔ گھوڑے کو انسان کا انتہائی وفادار ساتھی قرار دیا جاتا تھا؟ جو ہر مصیبت میں اس کا ساتھ دیتا تھا۔ میدان جنگ میں گھوڑے کا کردار بہت اہم تھا وہ اپنے سوار کو لے کر دشمن کی صف میں گھس جاتا اور صفوں کی صفیں اُلٹ دیتا تھا۔ قرآن کریم میں بھی گھوڑوں کا ذکر بڑے فخر سے کیا گیا ہے پھر اس پر بڑا بُرا وقت آیا کہ تانگوں اور ریڑھیوں میں جوتا جانے لگا۔ اب اس کا استعمال صرف ریس میں رہ گیا ہے جہاں اس پر جوّا کھیلا جاتا اور اس کی توہین کی جاتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ گھوڑا مایوسی اور بددلی کا شکار ہے۔ اس نے اپنی جان دے کر بھی انسان کے ساتھ اپنی وفاداری نبھائی لیکن انسان نے سائنس اور ٹیکنالوجی کے زعم میں آکر اس سے ناتا توڑ لیا۔ اب گھوڑا انسان کی بے وفائی سے مایوس ہو کر اپنی افزائش نسل میں بھی دلچسپی نہیں رکھتا اور شاید ایک وقت ایسا آئے جب اس کا ذکر کتابوں ہی میں پڑھنے کو ملے۔ اونٹ بھی انسان کا قدیم ترین ساتھی ہے وہ اُس وقت سے انسان کا ساتھ دے رہا ہے جب انسانی تہذیب کا نام و نشان بھی نہ تھا۔ اسے صحرا کا جہاز بھی کہا جاتا ہے۔ وہ عرب کے ریگزاروں میں اپنے سوار کو لے کر کئی کئی دن تک بے آب و دانہ کے سفر کرتا تھا اور اپنے مالک کو منزل پر پہنچا کر دم لیتا تھا۔ انسانوں کے ساتھ طویل رفاقت کے نتیجے میں اس کے اندر بہت سی خصلتیں انسانوں کی بھی آگئی تھیں جن میں سے شترکینہ بہت مشہور ہے۔ وہ جس سے بغض اور عداوت گانٹھ لے اسے معاف نہیں کرتا اور اسے مار کر چھوڑتا ہے۔ تاہم اس کی وفاداری بھی بے مثال ہے۔ اس نے جن لوگوں کا ہرگرم و سرد میں ساتھ دیا، وہ اب اسے چھوڑ کر ائرکنڈیشنڈ گاڑیوں میں گھوم رہے ہیں اور اس سے نظریں چراتے پھرتے ہیں۔ اس بے وفائی نے اس کے اندر مایوسی پیدا کردی ہے اور اسے بھی اپنی نسل بڑھانے میں کوئی دلچسپی نہیں رہی۔ رہا خچر تو وہ بیچارا نہ تین میں ہے نہ تیرا میں۔ البتہ گھوڑے کے ساتھ اپنی رشتے داری پر یوں فخر کرتا ہے۔
میرے ماموں کو نہیں پہچانتے شاید حضور
وہ صبا رفتار شاہی اصطبل کی آبرو
گھوڑے کے ساتھ ساتھ اب اس کی نسل بھی جمود کا شکار ہے۔
البتہ جن پالتو جانوروں کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے ان میں بکریاں سرفہرست ہیں۔ جائزہ رپورٹ کے مطابق بکریوں کی تعداد میں 21 لاکھ کا اضافہ ہوا ہے اور ملک میں ان کی تعداد 7 کروڑ 82 لاکھ ہوگئی ہے۔ بکری دودھ دینے والا جانور ہے اور دودھ ابتدا ہی سے انسان کی خوراک کا اہم حصہ رہا ہے۔ قدیم زمانے میں بکریوں کی تعداد ہی سے کسی خاندان کی امارت کا اندازہ ہوتا تھا۔ بکریاں چرانا بھی قدیم زمانے میں اہم پیشہ تصور ہوتا تھا۔ ہادی برحقؐ کا فرمان ہے کہ سب نبیوں نے بکریاں چرائی ہیں، خود نبی پاکؐ بھی نبوت سے قبل جوانی میں اجرت پر بکریاں چرایا کرتے تھے۔ شاید یہ بھی تربیت کا حصہ تھا کہ ایک آدمی عوام کالانعام کے ریوڑ کو کیسے کنٹرول کرسکتا ہے۔ بکریوں کے بعد بھینسوں کی تعداد میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے اور وہ 12 لاکھ کے اضافے کے ساتھ پورے ملک میں 4 کروڑ 12 لاکھ ہوگئی ہیں۔ بھینس بھی دودھ دینے والا جانور ہے۔ پاکستان میں زیادہ تر بھینس کا دودھ ہی استعمال ہوتا ہے اور دودھ کی صنعت سے لاکھوں لوگ وابستہ ہیں۔ ایک ممتاز سیاستدان جو ان دنوں نیب کی پکڑ میں آئے ہوئے ہیں، جب ان سے احتساب عدالت میں پوچھا گیا کہ ان کے ذرائع آمدنی کیا ہیں تو انہوں نے بتایا کہ انہوں نے 10 بھینسیں رکھی ہوئی ہیں جن کا دودھ بیچ کر وہ گزارہ کرتے ہیں۔ اب لوگ بھی کتنے ستم ظریف ہیں، ان سے پوچھ رہے ہیں کہ چلیے گزارہ تو ہوگیا لیکن یہ اربوں کے اثاثے کہاں سے آگئے؟ دودھ کے حوالے سے ہمیں ایک اور واقعہ بھی یاد آرہا ہے۔ برسوں پہلے قومی اسمبلی میں ایک ممتاز سیاستدان نے یہ بیان دیا تھا کہ جب تازہ دودھ میسر ہو تو بھینسیں پالنے کی کیا ضرورت ہے؟۔ یہ صنفِ نازک، اسلامی قدروں اور شادی کے مقدس ادارے کی صریح توہین تھی اگر کوئی غیرت مند قومی اسمبلی ہوتی تو اسے فوراً نکال باہر کیا جاتا اور پاکستانی معاشرے میں وہ نِکّو بن کر رہ جاتا لیکن افسوس ایسا کچھ بھی نہ ہوا اور وہ سیاستدان وفاداریاں بدل بدل کر اقتدار کی راہداریوں میں دنداتا رہا۔
بات گدھے سے چلی تھی اور کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔ گدھوں کی تعداد میں اضافہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ اس سے یار لوگ قیاس کے بہت سے گھوڑے دوڑا رہے ہیں۔ گدھا یوں تو بہت خاموش طبع اور صابر جانور ہے اپنی استطاعت سے بڑھ کر بوجھ ڈھوتا اور اپنے حال میں مست رہتا ہے لیکن اس کا ہمارے معاشرے پر غیر معمولی اثر ہے اسے ہم اپنی بول چال میں بطور استعارہ استعمال کرتے ہیں اور جو شخص بیوقوف ہو، اپنے انجام سے بے خبر ہو اور ڈینگیں مارتا ہو اسے لوگ گدھا کہنے سے نہیں چوکتے۔ اس معیار پر پرکھا جائے تو زندگی کے ہر شعبے میں گدھوں کی بھرمار ہے۔ حکومت گدھوں سے بھری پڑی ہے جن کے پاس ڈینگیں مارنے کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ سیاسی جماعتوں میں بھی گدھوں کی کمی نہیں ہے ان دنوں ایک سیاسی جماعت کے تین گدھے خبروں میں ہیں۔
گدھے اپنی ذاتی حیثیت میں تو ایک لاکھ ہی بڑھے ہیں لیکن سچ پوچھیے تو معاشرے میں ان کی تعداد بہت زیادہ ہوگئی ہے۔