جاہل عوام کا جوش و خروش

841

کہاوت ہے کہ گرا گدھے سے اور غصہ کمہار پر‘ اس کہاوت کو کورونا وبا کا مقابلہ کرنے میں ناکام نظر آتی ہوئی حکومت کے لیے سوچا اور نہ جوڑا نہ جائے‘ کیونکہ جب حکومت کی بات کی جائے تو ڈر لگا رہتا ہے اور خوف کے سایے پیچھا کرتے رہتے ہیں کہ کہیں کپتان ناراض ہی نہ ہوجائے‘ ہمارے یہاں تو رواج ہی یہی ہے کہ کپتان ناراض ہوا تو نوکری بھی چلی جاتی ہے اور اگر کوئی ٹیم میں شامل ہو اسے باہر بنچ پر بٹھا دیا جاتا ہے‘ دلکش بیٹس مین مائٹی خان اس کی سب سے بڑی مثال ہے‘ ان دنوں حکومت عوام سے کچھ ناراض دکھائی دے رہی ہے‘ حکومت چاہتی ہے کہ لوگ گھروں میں بیٹھیں‘ غیر ضروری سفر نہ کریں‘ ہاتھ نہ ملائیں اور گلے بھی نہ ملیں‘ یہ ہدایت انہیں موبائل فون کی رنگ ٹونز کے ذریعے بھی دی جاتی ہے‘ لیکن دوسری جانب حکومت نے عید سے پہلے تاجر تنظیموں کے مطالبات پر مارکیٹیں کھول دیں‘ ٹرانسپورٹ بھی چلادی‘ ہدایت تو تھی کہ سماجی فاصلہ رکھیں لیکن کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں تھا‘ کورونا بڑھنے لگا تو تاجر تنظیموں نے کہا کہ حکومت ذمے داری لے اور سماجی فاصلے کی پابند ی کرائے‘ ہمارا کام تو کاروبار کرنا ہے‘ بڑی معصوم دلیل دی گئی کہ ہم کسی گاہک کو منع نہیں کرسکتے‘ مارکیٹوں میں سماجی فاصلے کی پابندی کرانا ضلعی انتظامیہ کی ذمے داری قرار پایا۔
ضلعی انتظامیہ تاجر تنظیموںکے ساتھ مل کر کام کرتی ہے اور مجال ہے کسی تاجر تنظیم نے اپنے کسی ووٹر دکان دارکو جاہل کہا ہو‘ بلکہ جہاں اس سے غلطی ہوئی وہاں بھی وہ اس کے پیچھے کھڑی رہی‘ کیونکہ تاجر تنظیموں کو انہی سے دوبارہ ووٹ لینے ہیں‘ لہٰذا وہ انہیں جاہل کہہ کر وہ اپنے پائوں پر کلہاڑی نہیں مارسکتیں‘ لیکن حکومت نے کیا کیا؟ حکومت‘ جسے انتخابات میں عوام نے ووٹ دیے‘ کورونا پھیلنے پر انہیں اب حکومت جاہل کہہ رہی ہے‘ حالانکہ قانون کی پاس داری کے لیے اختیار تو حکومت کے پاس ہے‘ اس ’’جاہل‘‘ عوام کے پاس تو نہیں‘ عوام کو جاہل کہنے سے پہلے حکومت سوچتی کہ اگر عوام اگر عقل مند ہوتے تو اسے ہی ووٹ دیتے؟۔
اس ملک میں جہاں کہیں بھی انتخابی عمل ہوتا ہے‘ تاجر تنظیموں سے لے کر ملک کی بار کونسلز تک‘ سب اپنے اپنے ووٹرز کا خیال رکھتے ہیں‘ مگر کوئی میئر‘ کوئی وزیر‘ کوئی وزیر اعلیٰ‘ کوئی وزیر اعظم عوام کا خیال نہیں رکھتا‘ بس ووٹ لیا اور غائب‘ لیکن بھلا ہو اس حکومت کا اس نے جاہل کہہ کر عوام کو یاد تو رکھا اب عوام بھی انہیں انتخابات میں ضرور یاد رکھیں گے۔ ہمارے وزیر اعظم تو خیر ملک کی قومی کرکٹ ٹیم کے کپتان بھی رہے ہیں‘ ان کی کپتانی میں پاکستان کرکٹ کا عالمی حکمران بھی بنا‘ اس وقت بھی اس ملک کے ’’جاہل‘‘ عوام کرکٹ شائقین کی صورت میں دیوانہ وار گھروں سے باہر نکلے‘ کرکٹ کا عالمی حکمران بننے پر جشن منایا‘ عمران خان جب شوکت خانم کے لیے چندہ اکٹھا کرنے نکلے تو یہی جاہل عوام پیسہ دینے دیوانہ وار باہر نکلے تھے۔ پانچ اگست کو بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کی تو پاکستان کے ’’جاہل‘‘ عوام سب کچھ بھانپ چکے تھے اور شدید ردعمل دکھایا‘ مگر کسی عقل مند نے کہا کہ کوئی کنٹرول لائن کے پار نہ جائے جو جائے گا وہ کشمیر کا غدار ہوگا۔ سلام ہے مقبوضہ کشمیر کی ہائی کورٹ کو‘ اس نے جرأت مندانہ فیصلہ دیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر بھارتی سرکار کا حصہ نہیں ہے یہ تاریخی پیش رفت ہے، یورپی پارلیمنٹ کے نائب صدر ڈاکٹر فیبیو ماسیو کسٹاڈالو اور دیگر5 ارکان پارلیمنٹ نے یورپی کمیشن کے صدر کو خط لکھا ہے جس میںمقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی اور بھارتی فوج کی درندگی کی طرف توجہ دلائی ہے‘ اس ملک کے جاہل عوام تو اس پیش رفت پر خوش ہیں خط میں لکھا ہے کہ بھارتی حکومت اقوامِ متحدہ کے کمیشن برائے انسانی حقوق کی ہدایات پر سختی سے عمل کرے اور اس کی سفارشات پر عملدرآمد کو یقینی بنائے۔
یہ پہلا موقع ہے جب یورپی پارلیمنٹ کی جانب سے بھارت پر یکے بعد دیگرے دو سخت خط تحریر کیے گئے ہیں جس کے لیے یورپی یونین پاک فرینڈ شپ فیڈریشن یورپ کے چیئرمین چودھری پرویز اقبال لوسر اور اُن کی ٹیم مبارکباد کی مستحق ہے جن کی کوششوں سے یورپی پارلیمنٹ نے پہلی بار یورپی کمیشن کو کشمیر کی حمایت میں خط تحریر کیا‘ اب اس ملک کے ’’جاہل‘‘ عوام چاہتے ہیں کہ حکومت مقبوضہ کشمیر کے حق میں آواز بلند کرنے والے اِن 15 یورپی ارکان پارلیمنٹ کی کاوشوں کو سراہنے کے لیے اُنہیں پاکستان مدعو کیا جائے اور آزاد کشمیر کا دورہ کرایا جائے تاکہ وہ دیکھ سکیں کہ بھارت آج کل کنٹرول لائن پر گولہ باری کرکے عالمی قوانین کی دھجیاں بکھیر رہا ہے اور معصوم شہری آبادی کو نشانہ بنارہا ہے‘ حکومت سے صرف اتنی سی گزارش ہے کہ وہ عوام کو جاہل نہ کہے کیونکہ اگر یہ جاہل ہوتے تو یورپی یونین کے کشمیر سے متعلق لکھے گئے خط سے واقف نہ ہوتے‘ اور یہ بات یاد رکھنے والی کہ یہی ’’جاہل‘‘ ہر زندہ باد کو مردہ باد بھی بناتے دیر نہیں لگاتے۔