ڈاکٹر نجومی نہیں ہوتے

1203

ڈاکٹر فیاض عالم
سینئر صحافی اور بلدیات کی رپورٹنگ کے حوالے سے ملک گیر شہرت رکھنے والے رپورٹر محمد انور نے جسارت میں کورونا کے حوالے سے ایک کالم لکھا ہے۔ اس سے قبل بھی انہوں نے اس موضوع پر کچھ کالم لکھے تھے لیکن اس وقت اس وبائی مرض کا پھیلاؤ پاکستان میں بہت زیادہ نہیں تھا اور لوگ غیر معمولی تشویش میں مبتلا نہیں تھے۔ اس وقت بھی راقم نے فون پر بات کرکے انہیں کچھ حقائق بتانے کی کوشش کی تھی۔ تازہ کالم کے پہلے پیراگراف میں انور صاحب نے لکھا ہے۔ ’’کورونا وائرس کے بارے میں ہر گھنٹے بعد آنے والی مختلف اطلاعات نے مجھے ایک بار پھر اس موضوع پر لکھنے کو مجبور کردیا۔ کورونا، سچ اور حقیقت تو یہ ہے کہ یہ وائرس ہے مگر اس کا ٹیسٹ مرض کا علاج نہیں بلکہ اس میں اضافے کا سبب ہے۔ میرے صحافی دوست منیر عقیل انصاری کا چھوٹا بھائی تنویر عقیل انصاری بھی ٹیسٹ کے بعد اتنا شدید بیمار ہوگیا کہ اسے اسپتال میں داخل کرنا پڑگیا کیونکہ اس میں کورونا کی تمام علامات واضح ہوگئی تھیں جو پہلے غیر واضح تھیں، بہرحال الحمدللہ اب وہ اللہ کے حکم سے بہتر ہورہا ہے اور اللہ پاک سے یقین ہے کہ وہ جلد مکمل صحت یاب ہوجائے گا۔ مگر ٹیسٹ کے بارے میں بھی یقین کی حد تک شک ہوگیا ہے کہ یہ بیماری پیدا کرنے والا ٹیسٹ ہے نہ کہ بیماری سمجھ کر اس کا علاج کرنے والا ٹیسٹ۔ کیونکہ اس ٹیسٹ کے بعد تنویر سمیت متعدد کو سانس لینے میں تکلیف پیدا ہوئی۔ اسی طرح جنہوں نے یہ ٹیسٹ کرایا ان پر علامات واضح ہوگئیں اور جب یہ ٹیسٹ کا رزلٹ منفی آیا تو دوبارہ اور تیسری بار ٹیسٹ کرانے پر زور دے کر تیسرا ٹیسٹ کرایا گیا۔ کیوں؟ اس کا قابل قبول جواب کوئی بھی طبی ماہر نہیں دے سکا اور نہ دیتا ہے‘‘۔
ٹیسٹ کسی مرض کا علاج نہیں ہوتا، نجانے کالم نگار نے ایسی بات کس بناء پر لکھ دی ہے۔ ڈاکٹر نجومی، قیافہ شناس یا ستارہ شناس نہیں ہوتے۔ ڈاکٹروں کا کام امراض کی تشخیص کرنا، ممکن حد تک علاج کی کوشش کرنا ہے اور لوگوں کو احتیاط کرنے کی تلقین کرنا ہے۔ کیونکہ بعض امراض میں احتیاط علاج سے بہتر ہوتا ہے اور بعض امراض میں دوائیں مخصوص احتیاطی تدابیر کے بغیر غیر موثر ثابت ہوتی ہیں۔ اور اکثر مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی والی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ مثال کے طور پر راقم گزشتہ بارہ سال سے ذیابیطس کا مریض ہے انسولین لگاتا ہے اور ساتھ میں کچھ دیگر دوائیں بھی لیتا ہے۔ اب اگر انسولین بھی لیتا رہے اور جلیبیاں اور حلوے بھی کھاتا رہے، کولا ڈرنکس سے بھی لطف اندوز ہوتا رہے اور رمضان میں دو دو گلاس روح افزاء بھی پیتا رہے تو بیچاری انسولین کیا اثر دکھائے گی؟ لہٰذا احتیاطی تدابیر کی اہمیت اپنی جگہ مسلّم ہے۔
حکیم بقراط کے زمانے سے لے کر آج تک معالجین کا بنیادی کام یہ ہوتا ہے کہ مریض کی نبض دیکھیں، دل کی دھڑکنیں سنیں، اس کا معائنہ کریں علامتیں دیکھیں، شکایات سنیں اور اپنے علم اور تجربے کی بنیاد پر مرض کی تشخیص کریں اور علاج کے لیے ادویات تجویز کریں۔ میڈیکل سائنس نے جیسے جیسے ترقی کی ہے خون، پیشاب، بلغم اور دیگر چیزوں کے پیتھالوجیکل ٹیسٹ دریافت ہوئے ہیں۔ جبکہ ایکسرے کی ایجاد نے انقلاب برپا کر دیا اور اب سی ٹی اسکین، ایم آر آئی اور انجیوگرافی وغیرہ نے مختلف امراض کی تشخیص میں بہت اہمیت اختیار کرلی ہے۔ یہ بات ہر فرد کو اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ ڈاکٹر کسی مرض کی تشخیص کے لیے یا کسی مرض کی نوعیت جاننے کے لیے کرواتے ہیں کوئی ٹیسٹ مرض کا علاج نہیں ہوتا ہے اور نہ ہی کسی ٹیسٹ کے نتیجے میں کسی مرض میں شدت پیدا ہوسکتی ہے۔
انور صاحب نے منیر عقیل انصاری کے بھائی کا تذکرہ کیا ہے اور اس مثال سے ایک عجیب وغریب رائے قائم کرلی ہے بلکہ اسے اپنے کالم کے پہلے ہی پیراگراف میں لکھ بھی دیا ہے۔ منیر میرے چھوٹے بھائیوں کی طرح ہیں۔ کچھ دن قبل انہوں نے اپنے بھائی کی بیماری کے حوالے سے سے مجھے فون کیا اور کچھ علامات بتائیں۔ میں نے انہیں کچھ احتیاطیں بتائیں اور دو دن کے بعد علامات کی وجہ سے تجویز کیا کہ انہیں بھائی کا کورونا کا ٹیسٹ کروانا چاہیے۔ گلشن اقبال بلاک 5 میں واقع ڈاکٹر ثاقب انصاری کے چلڈرن اسپتال کا پتا بتایا جہاں جماعت اسلامی ضلع شرقی کے قیم ڈاکٹر فواد احمد انتظامیہ میں اہم عہدے پر فائز ہیں اور ہمارے بھیجے ہوئے مریض کو خصوصی ڈسکاؤنٹ بھی مل جاتا ہے۔ ٹیسٹ کے بعد مریض میں کورونا کی تصدیق ہوگئی جس کے بعد انہیں مشورہ دیا کہ وہ انہیں کسی بڑے سرکاری اسپتال میں داخل کروا دیں کیونکہ گھر پر آکسیجن کا انتظام کرنا آسان نہیں ہوگا۔ آج منیر بھائی نے فون پر بتایا ہے کہ خود ان کو بھی بخار آرہا ہے اور جسم میں درد محسوس ہو رہا ہے۔
کورونا وائرس اب تک دنیا میں کئی لاکھ لوگوں کی جان لے چکا ہے کراچی میں جماعت اسلامی کے کئی ارکان و کارکنان اب تک اس جان لیوا وبائی مرض سے جاں بحق ہوچکے ہیں اور یہ بیماری اس وقت شہر میں ہزاروں لوگوں کو لگ چکی ہے۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ کورونا وائرس یعنی کووڈ 19 کی بیماری سے 95 فی صد لوگ خود بخود ٹھیک ہو جاتے ہیں اور بالکل نارمل زندگی گزارنے لگتے ہیں ۔ لیکن کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ احتیاط نہ کی جائے اور بیماری کو عام سا فلو سمجھ لیا جائے۔ ڈاکٹروں کے مشوروں پر کان نہ دھرے جائیں بلکہ گھریلو ٹوٹکوں اور دیسی نسخوں پر اکتفا کر لیا جائے۔ ہرگز ہرگز نہیں! میرے پاس لکھنے کے لیے درجنوں مثالیں ہیں لیکن میں صرف دو تین مثالوں سے اپنی بات سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں۔ جماعت اسلامی کراچی کی پبلک ایڈ کمیٹی کے ایک متحرک رکن نے مجھے فون کر کے کچھ علامات بتائیں۔ میں نے انہیں آئیسولیشن کی ہدایت کی اور کچھ حفاظتی سامان مع پلس آکسی میٹر بھجوایا۔ رابطے میں رہے، الحمدللہ اب بہتر ہو چکے ہیں۔ اس کمیٹی کے ایک دوسرے رکن جو پیشے کے اعتبار سے انجینئر ہیں اور بہت پڑھے لکھے اور باشعور فرد ہیں انہیں بھی کچھ علامات ظاہر ہوئیں اور آہستہ آہستہ بڑھتی چلی گئیں۔ بدقسمتی سے سوشل میڈیا پر پھیلائے گئے پروپیگنڈے سے متاثر ہو چکے تھے۔ ٹیسٹ کروانے اور اسپتال جانے سے گریز کر رہے تھے۔ پروفیسر ڈاکٹر سہیل اختر نے انڈس اسپتال میں ان کے لیے پلازما تھراپی تک کا بندوبست کروا دیا۔ لیکن وہ اسپتال جانے سے خوف محسوس کر رہے تھے، نمونیا بڑھتا گیا۔ کورونا وائرس غیر معمولی تیزی سے اپنی تعداد میں اضافہ کرتا ہے اور پھیپھڑوں کو بہت تیزی سے متاثر کرتا ہے۔ ہم نے انہیں فون کرکے دھمکی دی کہ ڈنڈا ڈولی کرکے اسپتال لے جایا جائے گا اگر وہ نہیں گئے۔ بہرحال جب ان کی سانسوں کا مسئلہ شدید ہو گیا تو وہ اسپتال لے جائے گئے اور اب تشویش ناک حالت میں وینٹی لیٹر پر ہیں۔
کراچی کے معروف صحافی عمران لاری اور ان کے بھائی علامات ظاہر ہونے کے بعد سے ہماری ٹیم سے مسلسل رابطے میں رہے۔ گو کہ عمران کو سانس کی بیماری سمیت دیگر امراض پہلے سے لاحق ہیں لیکن بروقت تشخیص، پلس آکسی میٹر کی موجودگی اور کچھ دیگر ڈاکٹروں کی مسلسل مشاورت کی وجہ سے بروقت اسپتال لے جایا گیا اور اب طبیعت میں بہت بہتری ہے۔
اس کالم کے اختتام پر میں کورونا کے ٹیسٹ کے بارے میں ایک وضاحت کرنا چاہوں گا۔ ڈاکٹرز کئی بار ویڈیوز اور تحریروں کے ذریعے یہ وضاحت کر چکے ہیں کہ کورونا کے لیے اب تک سب سے مستند ٹیسٹ پی سی آر کہلاتا ہے۔ اگر یہ ٹیسٹ کسی مریض میں مثبت آ جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ مریض کو سو فی صد کورونا ہے اور اگر منفی آ جائے یعنی کہ ڈی ٹیکٹ نہ ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ پینتیس سے چالیس فی صد تک اس بات کا امکان ہے کہ نتیجہ غلط منفی آیا ہے اگر مریض میں کورونا کی واضح علامات موجود ہوں۔ کورونا اس وقت کراچی شہر میں بہت بری طرح پھیل چکا ہے۔ منافع خوروں نے پلس آکسی میٹر اور آکسیجن سلنڈرز کی قیمتیں بہت بڑھادی ہیں۔ اچھی خبر یہ ہے کہ برطانیہ میں ہونے والی تحقیق نے بتایا ہے کہ ایک بہت ہی سستی اور باآسانی دستیاب دوا کورونا کے سیریس مریضوں پر موثر ثابت ہوئی ہے اور پلازما تھیراپی کے نتائج بھی مخصوص مریضوں میں اچھے نکلے ہیں۔ کورونا سے صحت یاب ہونے والے اٹھارہ سے ساٹھ سال تک کی عمر کے لوگ پلازما کا عطیہ دے کر دو مریضوں کو زندگی کا انتہائی بیش قیمت تحفہ دے سکتے ہیں۔ یاد رکھیے! ڈاکٹر نجومی نہیں ہیں، وہ علاج کی کوشش کرتے ہیں۔ احتیاط بتاتے ہیں اور دعا کرتے ہیں، شفاء اللہ دیتا ہے۔