بحرانوں کا جزیرہ

564

ملک میں تیل کی قیمتوں میں کمی اور لاک ڈائون کے خاتمے کے ساتھ ہی جون کے مہینے میں تیل کے بحران کا آغاز ہوگیا۔ تیل کی قیمتوں میں کمی کے ساتھ ہی پٹرول پمپس پر گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کی لمبی قطاریں لگنا شروع ہوگئیں۔ بہت سے مقامات پر لوگ خالی برتن، کین اور موٹر سائیکلیں لیے قطاروں میں کھڑے نظر آئے۔ لوگ تیل کی تلاش میں پمپ در پمپ کبھی پیدل تو کبھی ٹرانسپورٹ میں مارے مارے پھرتے رہے۔ لوگوں ہاتھوں میں پیسے اُٹھائے تیل کی بھیک مانگتے نظر آئے یہ ایک المیہ تھا کہ لوگ پیسوں کے عوض تیل کی بھیک مانگ رہے تھے اور پمپوں کے پاس ان کے کشکول میں ڈالنے کے لیے تیل کے چند قطرے نہیں تھے۔ شاید یہی تاثر عوام کو حکومت سے برہم اور برگشتہ کرنے کا باعث تھا اور لوگ اپنا قصور پوچھ رہے تھے۔ میڈیا بھی تیل کی اس نایابی کی بھرپور کوریج کرکے عوام کے غم وغصے کو زبان دے رہا تھا۔ تیل کی یہ قلت دنیا میں کہیں اور دیکھی نہ سنی گئی۔ تیل کی قیمتوں میں کمی مسلسل ہو رہی ہے اور مجال ہے کہ اس کا اثرعام آدمی پر مثبت انداز میں پڑے۔ تیل کی قیمتوں میں کمی کے باوجود اشیائے خور ونوش کی قیمتوں میں کوئی خاص کمی کبھی نہیں دیکھی گئی۔ جون شروع ہوتے ہی پمپ مالکان نے پوری استقامت سے پمپوں پر تالے چڑھا دیے۔ بہت سے پمپوں کے باہر عوام کی لمبی قطاریں اور ہجوم دیکھ کر کورونا بھی مسکرا اور جھوم اُٹھا ہوگا۔ یہ ہجوم سماجی دوری کے فلسفے کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے نظر آرہے تھے۔ ابھی کچھ ہی عرصہ پہلے عید کی خریداری کے موقع پر عوام نے اسی رویے کا مظاہرہ کیا تو ملک میں کورونا کی ایک لہر سی نمودار ہوگئی۔ اب تیل کی ترسیل کی ذمے دار کمپنیوں کی مہربانی سے عوام دوبارہ پمپوں کے آگے سماجی دوری کے فلسفے کا مذاق اُڑاتے ہوئے نظر آئے تو انجام خدا ہی جانتا ہے۔
اس وقت ملک کے مختلف علاقوں میں تیل کہیں جزوی طور پر دستیاب ہے تو کہیں سرے سے نایاب ہے۔ اس کا ذمے دار کون ہے؟ کسی کو خبر نہیں۔ مجموعی طور ملک کا انتظام وانصرام چلانا حکومت کی ذمے داری ہے۔ حکومتی اداروں کا فرض ہے کہ وہ ہر جانب نظر رکھیں اور مستقبل بینی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حالات کی پیش بندی کریں۔ پاکستان میں حکومتیں اپنا کام ٹھیکے پر کسی اگلے مڈل مین کو سپرد کر کے خود لمبی تان کے سوجاتی ہیں۔ جب کسی بد انتظامی کے باعث عوام کی چیخ وپکار شروع ہوتی تو حکومت جاگ اُٹھتی ہے اور پہلے معاملے کا نوٹس لیتی ہے۔ اگلے مرحلے پر اظہار برہمی کرتی ہے اور بات بڑھ گئی ہو تو ذمے داروں کے تعین اور معاملے کی تحقیقات کے لیے کمیٹی قائم کرتی ہے۔ یہ بھی حکومت پر منحصر ہے کہ وہ ایسے کسی بھی بحران کو دل سے برا سمجھتی بھی ہے یا نہیں۔ کوئی حکومت اس طرح کے معاملات کو برا سمجھے تو بھی اس کا بھلا اور نہ سمجھے تو بھی اس کی صحت اور نام ناموس پر کوئی حرف نہیں آتا۔ بہت سی حکومتیں تو دل میں بھی برا نہیں سمجھتیں۔ موجودہ حکومت کی ’’خوبی‘‘ یہ ہے کہ کسی بھی بحران کا نوٹس بھی لیتی ہے اور اظہار برہمی بھی کرتی ہے اور تحقیقات کے لیے کمیٹی بھی قائم کرتی ہے۔ اس کے بعد کیا ہوتا ہے اس کا علم کسی کو نہیں۔ آٹے اور چینی بحرانوں میں ابھی تک یہی دیکھا گیا ہے۔
سرمائے کی یہ دنیا کس قدر بے رحم اور سفاک ہے کہ انسانوں سے بے تحاشا کماتے ہیں جب انسان پر بطور مجموعی برا وقت آتا ہے تو یہ مظلوم، لاچار اور خسارہ زدہ بن کر انسانیت کی مدد سے قاصر ہوجاتے ہیں۔ سرمائے کو دین وایمان بنانے کا نتیجہ یہی ہوتا ہے کہ سرمایہ دار کے لیے زندگی کی ہر شے سرمائے کے آگے بے معنی ہو کر رہ جاتی ہے۔ کورونا بحران میں یہی کچھ دیکھا جا رہا ہے جہاں بحث یہ ہے کہ انسانوں کو بچائیں یا معیشت کو۔ لاک ڈائون کریں تو انسان بچتے ہیں اور لاک ڈائون نہ کریں تو معیشت بچتی ہے۔ لاک ڈائون ہوتا ہے تو سرمایہ کار کمپنیوں کی مصنوعات کی کھپت رک جاتی ہے اور انہیں خسارہ برداشت کرنا پڑتا ہے۔ لاک ڈائون نہ ہونے کی صورت میں انسان مرتے ہیں تو ان کی بلا سے۔ ان کی اشیاء فروخت ہوتی ہیں اور انسان مریں تو بھی اس میں ان کے لیے کفن، سیمنٹ بلاک، سینی ٹائزر، دستانوں، ماسک سمیت نجانے کس کس شے میں کاروبار کا امکان پوشیدہ ہے۔ سرمایہ دار کے لیے زندگی بھی کاروبار ہے اور موت بھی، جنگ بھی کاروبار ہے اور امن بھی، دن بھی کاروبار کا نام اور رات بھی۔ انسان یا معیشت کی یہ بحث اب کھیل بن کر پوری دنیا میں جاری ہے۔ آٹا بحران، چینی بحران اور اب تیل بحران گویا کہ پاکستان میں بحرانوں نے گھر کا راستہ ہی دیکھ لیا ہے۔ یہ آج کی بات نہیں بلکہ عرصہ دراز سے پاکستان بحرانوں کی سرزمین ہو کر رہ گیا ہے۔ عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں کمی کے ساتھ ہی تیل کی قلت نے حکومت کی انتظامی صلاحیت کے آگے موٹا سا سوالیہ نشان کھڑا کیا ہے۔ اب اس بحران کا ذمے دار کون ہے۔ تیل فراہم کرنے والی سرمایہ کار کمپنیوں کی اپنی لیلوی داستان ہے اور انتظامی معاملات چلانے والے حکومتی ذمے دار اپنی ہی روایتی توتا مینا کہانی سنا رہے ہیں۔ عمر ایوب کو سنیں تو ان کے سوا ہر شخص اس بحران کا ذمے دار ہے اور رزاق دائود کی سنیں تو ان کے سوا سارے بحران کی جڑ ہیں۔ تیل فراہم کرنے والوں کی سنیں تو وہ معصوم عن الخطا ہیں۔ لگتا ہے کہ کسی اجنبی سیارے سے کوئی مخلوق اُتری اور پاکستان کے حصے کا سارا تیل نوش ِ جاں کر کے واپس چلی گئی۔ حقیقت یہ کہ حکومت کی رٹ کو چیلنج کرنے کے لیے مافیاز وجود میں آگئے ہیں اور یہ مافیاز حکومتوں کے اندر سے تقویت اور توانائی حاصل کرتے ہیں اس لیے کوئی بھی حکومت چاہنے کے باجود ان کے خلاف کارروائی کی قدرت نہیں رکھتی۔