قائد اعظم کٹہرے میں۔ خواجہ آصف کی ہرزہ سرائی

1083

خواجہ محمد آصف رکن قومی اسمبلی مسلم لیگ (ن) نے قائد اعظم کی حرمت پر ایک ٹیوٹ کے ذریعے جو چرکے لگائے ہیں پورا ملک سیخ پا ہو چلا ہے۔ خواجہ آصف نے قائد اعظم کو کٹہرے میں کھڑا کر کے کچھ سوال جواب کیے جن کا لب لباب یہ ہے کہ بحیثیت گورنر جنرل قائد اعظم ایک روپیہ تنخواہ لیتے تھے تو ممبئی کی بیش قیمت جائداد کیسے بنا لی۔ کیا وہ آمدن سے زائد اثاثے کے مجرم نہیں ہوئے، اس کم ظرف اور لاعلم شخص کو اتنا بھی نہیں پتا کہ قائد محترم کی ممبئی جائداد ان کی جدی پشتی جائداد تھی جو قیام پاکستان سے پہلے سے ان کے نام ہو چکی تھی پھر گورنر جنرل پاکستان کی حیثیت سے ایک روپیہ تنخواہ لے کر اتنی بڑی جائداد بنانے کا سوال کیسے پیدا ہو سکتا ہے۔
کہتے ہیں جو اپنے باپ کا نہیں وہ کسی کا نہیں قائد اعظم کو بابائے قوم اسی لیے کہا جاتا ہے کہ وہ مملکت پاکستان کی آزادی کے لیے سب سے بڑے قائد تھے جو باپ کے درجے میں آتے ہیں۔ خواجہ آصف نے یہ ہرزہ سرائی یوں ہی نہیں کردی۔ اس کے پیچھے بڑی سازش بھی ہے اور اندرونی و بیرونی ان قوتوں کے لیے جو نظریہ ٔ پاکستان اسلام اور آئین پاکستان کے خلاف ہیں۔ ایک پیغام پنہاں ہے جب کوئی اپنی ہوس اقتدار کو مٹانے کے لیے ساری حدیں پار کر جائے اس کے لیے کہتے ہیں کہ اس کی مت ماری گئی ہے میاں صاحب کو جو بھرے جلسوں میں کہتے پھرتے تھے کہ گرمی اور لوڈ شیڈنگ نے عوام کی مت مار دی ہے یعنی عوام پاگل ہو گئے ہیں۔ ان کو مت مارے جانے کا مفہوم یہاں سے اچھی طرح معلوم ہوجائے گا کہ جب تھوڑا سا احتساب کا شکنجہ کسا گیا تو اقتدار کا سنگھاسن دور ہوتا نظر آیا اور شاید نظر ہی سے اوجھل نہ ہوجائے تو اقتدار حاصل کرنے کے لیے انسان پاگل پن کی حد تک پہنچ جائے اور کسی کی حرمت اور مقام کو اپنے پائوں تلے روند دے اس کو کہتے ہیں اس شخص کی مت ماری گئی۔ بھلا ایسے گھنائونے طریقے سے اقتدار حاصل کرنے والے وہ لوگ جو خود کو بابائے قوم کی جماعت کا امین کہلواتے ہیں۔ اپنے ہی باپ کو کٹہرے میں لا کھڑا کیا۔ آئین پاکستان میں ایک اور شق کا اضافہ کیا جائے، جس میں بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کی عزت کے تحفظ کی یقین دہانی کرائی جائے اور ان کی ذات پر حملہ کرنے والا قابل دست درازی قانون قرار پائے۔ ابھی تک ایسا کوئی قانون موجود نہیں اس لیے خواجہ آصف بچے ہوئے ہیں۔ یہ کوئی پہلا موقع نہیں اور نہ ہی (ن) لیگ کوئی پہلی اور آخری جماعت ہے جو نظریہ پاکستان پر حملہ آور ہوئی ہو یا قائد اعظم کی ذات کو نشانہ بنایا ہو یا آئین پاکستان کی تضحیک کی ہو، یہ سیکولر پارٹیوں کے غیر اعلانیہ منشور کا اولین حصہ ہے جس کے تحت وہ بیرونی قوتوں کو یقین دلاتے رہتے ہیں کہ اگر ہم نہ ہوئے تو اس ملک پر اسلام پسند قابض ہو جائیں گے اگر ہمارے حوالے اقتدار نہ کیا گیا تو ورلڈ بینک ہو یا آئی ایم ایف کسی کی کوئی پالیسی پاکستان میں کامیاب ہونے والی نہیں اور یہ ملک ترکی کی طرح آزد منش ہوجائے گا پھر بھارت سے لے کر امریکا تک کے بارے میں نظریاتی پالیسیاں بنائے گا۔ یہ ملک نظریاتی طور پر آزاد ہوجائے گا جہاں آزاد معیشت ہوگی فکری اور ذہنی آزاد ہوگی اور برطانیہ کا نظریہ غلامی پائوں تلے روند دیا جائے گا۔ اس لیے ہمارا یہاں ہونا بلکہ اقتدار میں ہونا یقینی بنایا جائے اس کے لیے بیرونی طاقتیں بھی کچھ شرائط عائد کرتی ہیں جن کو پورا کرنے کی یہ سیکولر جماعتیں اپنے تئیں عوام کے غیظ و غضب سے بچتے بچاتے چوری چھپے کوئی نہ کوئی کارروائیاں کرتی رہتی ہیں۔
اس سے قبل بھی جب (ن) لیگ کی حکومت کا چل چلائو تھا اور اپنی آخری سانسیں لے رہی تھی قومی اسمبلی اور سینیٹ میں ایک بل کی آڑ میں ناموس رسالت پر حملہ آور ہونے کی کوشش کی تھی اور حلف نامہ ختم نبوت میں مجرمانہ ترمیم کی کوشش کی گئی تھی لیکن خدا کو کب منظور ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے پیارے نبیؐ کی حرمت پر کسی خبیث کو شب خون مارے کی اجازت دے۔ اسی وقت عین موقع پر وہ ڈرافٹ پکڑا گیا اور پھر سارے ایوان میں شور شرابہ شروع ہو گیا اور (ن ) لیگی منہ چھپاتے پھرتے رہے۔ ذلت و رسوائی کے ساتھ ان (ن) لیگیوں نے اپنی عاقبت بھی خراب کر لی۔ یہاں بات (ن) لیگ پر ہی ختم نہیں ہوجاتی پیپلز پارٹی اور دیگر سیکولر جماعتیں بھی اپنے بیرونی آقائوں کو ایسی ہی حرکتوں سے آگاہ کرتی رہتی ہیں۔ پیپلز پارٹی نے تو سندھ میں صحت، تعلیم اور انصاف کا ہر سطح پر جنازہ نکال کر یقین دہانی کرادی ہے کہ اگر برطانوی راج کا سکہ ابھی تک رائج رکھنا ہے تو سندھ میں پیپلز پارٹی کا ہونا لازم و ملزوم ہے۔ اب کل ہی کی بات کے ایک امریکی خاتون جو دس سال سے اس ملک میں مقیم ہے بظاہر وہ صحافی گردانی جاتی ہے مگر اس کی حرکات و سکنات کسی اور ہی مقاصد کی چغلی کھاتی ہیں۔ 9 سال بعد اس خاتون نے پیپلز پارٹی کی جوان و ضعیف قیادت پر ایسے قبیح الزامات عائد کیے جو سمجھ سے بالا تر ہیں لیکن اس میں بھی اندیشہ یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس کو خود پیپلز پارٹی اپنے دور اقتدار میں امریکا سے یہاں لائی اور اس کو ٹھکانہ فراہم کیا۔ اس کے پاکستان میں رہنے کے بہت سے قانونی سوالات بھی جنم لے رہے ہیں۔ بہرحال اس نے بلاول زرداری کے بارے میں کہا کہ اس کا ایک دوست ڈیوڈ جیمز برطانوی شہری ہے اور اکثر بلاول ہائوس آتا جاتا رہتا، شاید وہ بھی دس سال سے یہیں مقیم ہو، یہ کھیل اس لیے کھیلا جا رہا ہے کہ عام انتخابات میں صرف ڈھائی سال کا عرصہ باقی رہ گیا ہے اور مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی دوڑ اِس بات پر لگی ہوئی کہ کون بیرونی آقائوں کو زیادہ سے زیادہ یہ باور کرانے میں کامیاب ہوتا ہے کہ وہی ان کے مقاصد پورے کرنے کے لیے ضروری ہیں۔ اس کے لیے دونوں اپنی اپنی حدوں کو پار کر رہے ہیں کوئی نظریہ
پاکستان بانی پاکستان پر حملہ آور ہے تو کوئی معاشرتی اور کردار میں بگاڑ کے ذریعے یقین دلا رہا ہے کہ پاکستان کے معاشرے کو اسلامی طرز معاشرت سے دور کرنے کے لیے اس کے کردار کو دیکھا جائے اور پھر حکومت پیپلز پارٹی کو دی جائے اب یہ فیصلہ تو گوروں نے کرنا کہ پہلے کون اقتدار کا حق دار ہے وہ جو نظریہ پاکستان کو سبوتاژ کرنے کی ’’صلاحیت‘‘ رکھتا ہے یا وہ جو پاکستان کے اسلامی طرز معاشرے پر کاری ضرب لگانے کی ’’صلاحیت‘‘ رکھتا ہے۔ ابھی کورونا کی آڑ میں جس طرح نماز، مساجد، تراویح، اعتکاف، نماز جمعہ پر کاری ضرب پیپلز پارٹی لگا چکی ہے وہ بھی گوروں کو باور کرانے کے لیے ہی کی گئی تھی لیکن حرماں نصیب پیپلز پارٹی کو سوشل میڈیا پر ایسے آڑے ہاتھوں لیا گیا کے چاروں شانے چِت ہو گئی۔ اب مساجد بھی کھلی ہیں آخری روزوں کی تراویح جمعتہ الوداع، نماز عید یعنی جو کچھ وہ کرنا چاہ رہی تھی وہ کرنہ سکی اور شاید آئندہ بھی نہ کرسکے مگر مفت کی بدنامی اپنے کھاتے میں ضرور ڈال لی۔ اب نئی کوڑی ایک یہ لائی کہ کراچی کے اسکولوں کو پانچ سال کے لیے کورونا کا بہانہ کر کے بند کر دیا جائے تاکہ اندرون سندھ کی طرح یہاں بھی جہالت کا دور دورہ ہوجائے اور کراچی سے اُبھرتی قیادت کا راستہ روکا جا سکے لیکن ’افسوس ان غنچوں پر جو بن کھلے مرجھا گئے‘ کے مصداق ابھی وزیر تعلیم سندھ میڈیا سے بات کر کے گھر بھی نہ پہنچے ہوں گے کہ ان پر چاروں طرف سے اعتراضات کی بوچھاڑ ہونے لگی۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ سیکولر عناصر اس ملک کی نظریات سرحدوں کو ہمیشہ سے نشانہ بناتے رہے ہیں اس لیے دینی سوچ رکھنے والوں کو جاگتے رہنا ہوگا۔ تاکہ پھر کوئی خواجہ آصف بابائے قوم جناب قائد اعظم محمد علی جناح کو کٹہرے میں کھڑا نہ کرسکے۔