میری بستی نہ اڑ جائے غبار کارواں ہوکر

594

اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی ذات بڑی ہے لیکن پاکستان کے افق پر دور تک امید کی کوئی کرن نظر نہیں آرہی۔ لگتا ہے لانے والے بھی کچھ شرمسار سے ہیں۔ بہت دن ہوگئے ایک پیج کے الفاظ بھی سنائی نہیں دے رہے۔ معیشت اور کورونا کی صورت حال اتنی خراب ہے کہ کسی وقت بھی عوام کا صبر جواب دے سکتا ہے۔ وزیراعظم، وزرائے کرام اور صاحبان عالی قدر سے وابستہ بیانا ت دیکھیں تو عام حالات میں بھی انسان اس طرح کے بے وقوف لوگوں سے گریز میں ہی عافیت محسوس کرتا ہے دماغی موٹے پن اور لا علمی کا جو اظہار وہ اپنے قول وفعل سے کرتے نظر آتے ہیں۔ خبر آئی ہے کہ بل گیٹس نے ہمارے آرمی چیف سے رابطہ کیا ہے اور ان سے پولیو مہم کے بارے میں تبادلہ خیال کیا ہے۔ اب اس خبر پر یقین کرنے کے لیے۔۔۔ دوسری جنگ عظیم میں لارڈ گورٹ کی برطا نوی فوج فرانس میں جرمنوں کے خلاف صف آرا تھی۔ برطانیہ کے لوگ اپنے فرزندوں کے لیے دھڑا دھڑ تحائف بھیج رہے تھے۔ تحائف کے ضمن میں ایک شخص نے اخبار میں لکھا کہ ہمیں تیل لے جانے والا ایک پورا جہاز شراب سے بھر کر اپنے لڑکوں کے لیے بھیجنا چاہیے۔ ممکن ہے فوج کے ساتھ شراب کا ذکر آپ کو ناگوار گزرے تو دعا پر ایک واقعہ سن لیجیے۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران اٹلی میں گھمسان کا رن پڑ رہا تھا۔ ایک امریکی ڈویژن کی حالت سخت ابتر تھی۔ اس کیفیت میں سپہ سالار اعلیٰ مارک کلارک اور ڈویژن کمانڈر میجر جنرل ڈیلوی کے درمیان ٹیلی فون پر درج ذیل گفتگو ہوئی
کلارک: ’’آپ اب کیا کررہے ہیں؟ کیا کرسکتے ہیں؟‘‘
ڈیلوی: ’’کچھ بھی نہیں میں صرف دعا کر سکتا ہوں‘‘۔
پاکستان کا بجٹ بھی دعا کا معاملہ ہو کر رہ گیا ہے۔ اس ماہ کی 12تاریخ کو تحریک انصاف حکومت نے اپنا دوسرا بجٹ پیش کیا۔ اگر آپ کا یہ خیال ہے کہ بجٹ معیشت کو مشکلات سے نکالنے اور معاشی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے ترتیب دیا جاتا ہے تو یہ آپ کی خام خیالی یا بے وقوفی ہے۔ بجٹ پاکستان کے بڑھتے ہوئے سودی قرضوں میں سرمایہ کاری کرنے والے غیر ملکی اور مقامی سرمایہ داروں کی سرمایہ کاری کو محفوظ رکھنے کے لیے پیش کیے جاتے ہیں۔ آئی ایم ایف کے احکامات کے مطابق پچھلے بجٹ کی تشکیل اور کورونا کے مسئلے سے انتہائی بے وقوفی سے نمٹنے کی وجہ سے پاکستان کی معیشت میں کچھ نہیں رکھا سوائے اعداد وشمار کے جھوٹ کے۔ لیکن اس کے باوجود بھی حکومت اس برس بھی تقریباً 3ہزار ارب روپے سود کی ادائیگی کی صورت خرچ کرے گی۔ جو 7ہزار ارب روپے کے بجٹ کا تقریباً 42فی صد بنتا ہے۔ اس بے حساب سود کی ادائیگی کے لیے پی ٹی آئی کی حکومت نے آئی ایم ایف کو یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ ٹیکس ہدف 5ہزار ارب روپے رکھے گی۔ جس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ پاکستان کی معیشت مزید مفلوج ہوجائے گی۔
حکومت کسی کی بھی ہو فوجی ہو یا سول۔ پیپلز پارٹی کی ہو، ن لیگ کی یا تحریک انصاف کی بجٹ مقامی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ترتیب نہیں دیے جاتے بلکہ عالمی سامراجی اداروں کے مطالبات کی تکمیل کے لیے تشکیل دیے جاتے ہیں۔ ہماری حکومتوں کا کردار ان اداروں کے منشیوں سے بڑھ کر نہیں ہوتا۔ جو قوم کو دلاسہ دیتے رہتے ہیں کہ چند ماہ وسال کی بات ہے پھر ہم ان اداروں کے چنگل سے آزاد ہوں گے اور صرف اور صرف قومی مفادات کے تحت سارے کام کیے جائیں گے جب کہ درحقیقت یہ حکومتیں اپنے اقدامات سے پاکستان کو ان اداروں کے چنگل میں پھنساتی چلی جا رہی ہیں۔ حکومت کسی کی بھی ہو جب تک ہم ان سامراجی اداروں کے چنگل میں پھنسے ہوئے ہیں ہمارا کوئی معاشی مستقبل نہیں۔ آئی ایم ایف کا منصوبہ ہے کہ ٹیکسوں میں مسلسل اضافہ کیا جائے 2024-25 تک 10ہزار ارب روپے ٹیکس وصولی کو یقینی بنایا جائے۔ جب کہ صورتحال یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت کے پاس قرضوں کی ادائیگی تو رہی ایک طرف سود کی قسطیں ادا کرنے کے لیے پیسے نہیں۔ سود کی ادائیگی کے لیے یہ حکومت دنیا بھر سے بھیک مانگتی پھررہی ہے۔ پی ٹی آئی کی حکومت کا دعویٰ ہے کہ معیشت کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کے لیے ٹیکسوں میں اضافہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ جی ڈی پی کی شرح میں اضافہ ہوسکے اور پاکستان اپنے وسائل کے مطابق جی سکے۔ یہ سب باتیں ہی باتیں ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے بجٹ آئی ایم ایف کی تخلیق ہوتے ہیں جن کا ایک ہی ہدف ہوتا ہے سود کی ادائیگی کے لیے پا کستان کو مزید نچوڑنا۔
پاکستان کے عوام کی جائز ضروریات کی تکمیل، مفلوج معیشت کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے، بچوں کی تعلیم، طبی ضروریات، کشمیر کی آزادی کے لیے جہاد، ان شعبوں کے لیے ہماری حکومتوں کے پاس کچھ نہیں لیکن عالمی سرمایہ دار اداروں کے سود کی ادائیگی کے لیے یہ حکومتیں ہاتھ باندھے کھڑی رہتی ہیں۔ پاکستان میں جمہوریت یہاں کے لوگوں کی ضروریات پوری کرنے میں نا کام ہوچکی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ جمہوریت عوامی مسائل کے حل میں دلچسپی ہی نہیں رکھتی۔ یہ ایک ایسا شیطانی نظام ہے جو غیر مستحکم حکومتیں جنم دیتا ہے۔ یہ حکومتیں ہر طرف سے دبائو میں ہوتی ہیں۔ ہر طرف سے ان کے ہاتھ پیر بندھے ہوتے ہیں۔ یہ حکومتیں ہر وقت اپنی بقا کی جنگ لڑتی رہتی ہیں۔ طاقتور حلقوں کے مفادات کی تکمیل کے سوا ان کے پاس کوئی راستہ نہیں ہوتا۔ ایک طرف انہیں غیر ملکی اور مقامی سرمایہ داروں کے سود کی ادائیگی کی فکر ہوتی ہے تو دوسری طرف ان اداروں کے ناجائز مطالبات کی تعمیل کی۔ یہ مطالبات بظاہر بڑے خوش کن ہوتے ہیں لیکن ان کی بنیادوں میں وہ بارود بھرا ہوتا ہے جو ملکوں اور اس کے ادروں کی ایسی کی تیسی کرکے رکھ دیتا ہے۔
جمہوریت میں صحت کے شعبے پر سب سے کم توجہ دی جاتی ہے۔ صحت فرد کا ذاتی مسئلہ ہے۔ جمہوریت پرائیوٹ اسپتالوں کو سروسز، ادویات اور طبی سہولتوں کے لیے زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کے مواقع مہیا کرتے ہیں اندازہ کیجیے کہ ٹی وی آرٹسٹ فخر عالم کا ایک پرائیوٹ اسپتال کا کورونا کے علاج کا چند دن کا بل 17لاکھ بنایا گیا۔ پوری دنیا میں جمہوریت نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ بجٹ میں صحت کے شعبے کو اتنے مالی وسائل فراہم ہی نہ کیے جائیں جس کے ذریعے سرکاری شعبے میں ایک مضبوط اور باصلاحیت صحت کا شعبہ قائم ہوسکے۔ ریاست صحت کے شعبے کو بہت ہی محدود وسائل فراہم کرتی ہے۔ نجی کمپنیاں محض ان بیماریوں کی تحقیق پر زیادہ توجہ دیتی ہیں جن امراض کی ادویات کی فروخت سے وہ زیادہ سے زیادہ نفع کماسکیں۔ کورونا کی وبا نے ثابت کردیا کہ کسی بھی جمہوری ملک کا صحت کا شعبہ بڑے پیمانے پر ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ امریکا پوری دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام کی نمائندگی کرتا ہے لیکن کورونا کی وبا نے اس کی حقیقت کو اس طرح آشکار کیا کہ روزانہ کی بنیاد پر آنے والے کیسز، مجموعی کیسز اور اموات کی شرح کے لحاظ سے امریکا کورونا سے سب سے زیادہ متاثرہ ملک ہے جب کہ اس کے ارب پتی افراد نے اس وبا سے بھی اربوں ڈالرز کمائے ہیں۔
پاکستان کا معاشی اور صنعتی بحران کئی دہائیوں پر محیط ہے۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی طرح تحریک انصاف بھی پاکستان کو اس بحران سے نکالنے میں ناکام رہے گی۔ یہ حکومت بھی ماضی کی حکومتوں کی طرح مغربی ماڈل کی اندھی تقلید کررہی ہے جس میں مقامی صنعتوں کی ترقی کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ آئی ایم ایف نے اسٹیٹ بینک آف پا کستان کو اپنے کنٹرول میں لے لیا ہے جہاں اس نے اپنے سابق ملازم رضا باقر کی تعیناتی کو یقینی بنایا اس طرح پا کستان میں معیشت میں سرمائے کے بہائو پر مکمل کنٹرول حاصل کرلیا۔ اس صورت حال میں ہماری پالیسیوں اور وزرا کی حیثیت:
سنا ہے اس طرف بھی جناب عشق گزریں گے
میری بستی نہ اڑجائے غبار کارواں ہوکر